اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے ٹرانسفر اور سنیارٹی سے متعلق اہم آئینی مقدمے کی سماعت جاری ہے، تاہم درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین اپنے جواب الجواب دلائل مکمل نہ کر سکے، جس پر عدالت نے سماعت 16 جون تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں مقدمے کی سماعت کی، جس دوران بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 175 اے اور 200 ججز کے تبادلے سے متعلق واضح رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے بقول، مستقل ٹرانسفر نہ صرف آئینی تقاضوں کے منافی ہے بلکہ ایسی کوئی مثال ماضی میں موجود نہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ کے سیکشن 3 میں صرف ججوں کی تقرری کا ذکر ہے، ٹرانسفر کا کوئی ذکر نہیں، جبکہ جوڈیشل کمیشن رول 6 میں استعمال ہونے والے "ریجن” کے لفظ کی قانونی وضاحت بھی غیر واضح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ججز کی ٹرانسفر کے عمل میں بامعنی مشاورت نہیں کی گئی، جس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔
سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے اس وقت آئینی اور قانونی تشریح کا معاملہ ہے، اور اس تبادلے میں تین چیف جسٹسز شریک تھے، اس لیے ہر فیصلہ صرف انتظامیہ کا اختیار نہیں کہلا سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آرٹیکل 175 اے کے تحت تقرری کی گنجائش موجود ہے۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ کے منٹس کا حوالہ دیا گیا، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ان منٹس سے متعلق کسی "خزانے” کے مالک نہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے عندیہ دیا کہ منٹس سے متعلق سوالات سماعت کے اگلے مرحلے میں اٹھائے جائیں گے۔
بینچ نے اس کیس کو "فرسٹ ایمپریشن” کیس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے مستقبل کے لیے ایک اہم عدالتی نظیر قائم ہو سکتی ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ اگر ٹرانسفر کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے، تو وزارت قانون اس عمل کا آغاز کس بنیاد پر کر سکتی ہے۔
سماعت کے اختتام پر بیرسٹر صلاح الدین نے جلد سماعت مکمل کرنے کی استدعا کی، تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ جواب الجواب میں سوالات کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، اس لیے دلائل مکمل نہیں ہو سکتے، جس پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی اتفاق کیا۔
یاد رہے کہ یہ مقدمہ ججوں کے تبادلے، تقرری، سنیارٹی اور عدلیہ کی خودمختاری سے متعلق حساس آئینی سوالات پر مشتمل ہے، جس کا فیصلہ مستقبل میں عدالتی نظام کی سمت متعین کر سکتا ہے۔