سانحہ سوات: پنجاب سے لوگ مرنے نہیں، سیر کے لیے گئے تھے، عظمیٰ بخاری

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور: ترجمان پنجاب حکومت عظمیٰ بخاری نے سوات کے دلخراش واقعے پر خیبرپختونخوا حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ "پنجاب سے لوگ مرنے کے لیے نہیں، سیر کے لیے گئے تھے۔”

پنجاب اسمبلی کے میڈیا ہال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سوات میں ایک ہی خاندان کے افراد دریائے سوات میں بہہ گئے، وہ دو گھنٹے تک ٹیلے پر کھڑے مدد کے منتظر رہے، لیکن ریسکیو ٹیمیں موقع پر نہ پہنچیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “ریسکیو 1122 صرف پرچوں پر فعال ہے، عملی طور پر صفر کارکردگی دکھائی گئی۔”

latest urdu news

انہوں نے یاد دلایا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے 26 مئی 2024 کو ایئر ایمبولینس سروس شروع کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن سوات واقعے کے وقت وہ سہولت کہیں نظر نہ آئی۔

عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں، سوات جیسے سیاحتی مقامات پر پہلے بھی ایسے سانحات پیش آ چکے ہیں، لیکن کوئی نظام موجود نہیں۔ "نہ ہوٹلنگ کے ضوابط کا خیال رکھا گیا، نہ سڑکوں پر فنڈز لگے، نہ ہی دریائے سوات کے گرد کوئی ادارہ قائم کیا گیا۔”

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2022 میں بھی اسی طرح ایک واقعے کے دوران ایک طیارہ اشرافیہ کے لیے اڑایا گیا، جبکہ عام لوگوں کی لاشیں ڈمپرز میں لائی گئیں۔ “اگر ایسے وسائل عوام کے لیے نہیں، تو حکومت چھوڑ دیں۔ یہ ریسکیو ادارے صرف دکھاوے کے لیے نہیں ہونے چاہئیں۔”

عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ اگر یہ واقعہ پنجاب میں ہوتا تو فوری ہنگامی اقدامات کیے جاتے، جیسے مری کے سانحے پر کیے گئے تھے۔ انہوں نے خیبرپختونخوا حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ محض بیانات سے کام نہ چلائے، عملی اقدامات کرے۔ “دریا کے کنارے کم از کم کشتی یا کوئی ریسکیو دفتر ہی قائم کر دیں، اگر خیمے نہیں لگا سکتے تو شرمندگی ہی دکھا دیں۔”

پریس کانفرنس کے آخر میں انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت محرم الحرام کے لیے بھی مکمل تیار ہے اور امکان ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب متاثرہ خاندان سے ملاقات کے لیے خود جائیں گی۔ “کے پی کے عوام اب سوال کر رہے ہیں کہ آخر کب تک ایسی غفلت جانیں لیتی رہے گی؟

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter