ایک سوال کے جواب میں پرویز الٰہی نے کہا کہ ہمیشہ بہتری کی امید رکھنی چاہیے، مجھے یقین ہے کہ حالات بہتر ہوں گے ، انہوں نے ملک کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مایوسی کی ضرورت نہیں ، معاملات افہام و تفہیم سے سلجھائے جا سکتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان کی رہائی کے لیے 5 اگست کو احتجاج کی کال دی گئی ہے جبکہ دوسری جانب مذاکرات کی باتیں بھی ہو رہی ہیں تو کون سا راستہ بہتر ہے، اس پر انہوں نے کہا کہ ’’پہلے مذمت ہوتی ہے، پھر مفاہمت ہوتی ہے، تو مفاہمت ہی بہتر ہے، مذاکرات سے کوئی نہ کوئی بہتری کی صورت نکل آتی ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ تحریک انصاف کی قیادت نے مذاکرات کے لیے باضابطہ طور پر خط لکھا ہے، تاہم ابھی تک اس خط کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا، نہ ہی کوئی پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے۔
صدر مملکت آصف زرداری کو تبدیل کیے جانے یا 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر پرویز الٰہی نے کہا کہ ’’یہ تو میں آپ سے سن رہا ہوں‘‘ اور یوں ان خبروں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
پرویز الٰہی نے گفتگو کے دوران بار بار اس بات پر زور دیا کہ افہام و تفہیم اور سیاسی مکالمہ ہی ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا واحد راستہ ہے۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف نے موجودہ سیاسی بند گلی سے نکلنے کے لیے بارہا مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔ سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا تحریک انصاف کا احتجاجی راستہ نتیجہ خیز ہوگا یا مفاہمت کی راہ ہی زیادہ موزوں ہے۔