پنجاب حکومت نے مہمان آبی پرندوں کے شکار کے سیزن کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق، یکم اکتوبر 2025 سے 31 مارچ 2026 تک مخصوص شرائط کے تحت شکار کی اجازت دی گئی ہے، تاہم اس بار قوانین کو سخت کیا گیا ہے تاکہ مہاجر پرندوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔
اعلان کے مطابق، شکاری صرف ہفتے اور اتوار کو شکار کر سکیں گے اور اس کے لیے محکمہ وائلڈ لائف سے باقاعدہ اجازت نامہ (پرمٹ) حاصل کرنا لازمی ہوگا، جو صرف ایک دن کے لیے جاری کیا جائے گا۔ اس پرمٹ کی فیس 500 روپے مقرر کی گئی ہے اور اسے آن لائن حاصل کیا جا سکتا ہے۔
چیف وائلڈ لائف رینجر مبین الہٰی نے بتایا کہ محفوظ علاقوں (Protected Areas) میں کسی بھی قسم کے شکار کی اجازت نہیں ہو گی، اور نہ ہی گاڑی میں بیٹھ کر شکار کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ مقررہ تعداد سے زیادہ پرندوں کا شکار بھی قابل سزا جرم ہوگا۔
پاکستان میں ہر سال لاکھوں مہاجر پرندے، خاص طور پر وسطی و شمالی ایشیائی علاقوں سے، "انڈس فلائی وے” کے راستے سندھ اور پنجاب کے آبی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ پنجاب میں ہیڈ مرالہ، کلر کہار جھیل، اور چشما بیراج جیسے مقامات ان پرندوں کے اہم ٹھکانے سمجھے جاتے ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ان پرندوں کی آمد میں خطرناک حد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ 2021–22 میں جہاں تقریباً 60 ہزار سائبیرین پرندے پنجاب پہنچے تھے، وہیں 2022–23 میں یہ تعداد گھٹ کر محض 40 ہزار رہ گئی، جو 34 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی مریم نواز کی کارکردگی سے خائف ہے: عظمیٰ بخاری
جنگلی حیات کے ماہر بدر منیر کے مطابق غیرقانونی شکار کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے کہ قانونی طریقہ کار کو زیادہ آسان اور شفاف بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ شکار کو صرف ایک کھیل کے طور پر لیا جانا چاہیے، نہ کہ خوراک کے حصول کا ذریعہ۔
آئی یو سی این کے نمائندہ عاصم جمال کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پرندوں کے ہجرتی راستے اور اوقات تبدیل ہو رہے ہیں، جب کہ گزشتہ برسوں کے سیلابوں نے ان کے قدرتی مساکن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگر آبی ذخائر طویل عرصے تک زیرِ آب رہے تو پرندوں کی افزائش نسل اور خوراک کے ذرائع شدید متاثر ہوں گے۔
مشن اویئرنیس فاؤنڈیشن کے فہد ملک نے اس سلسلے میں شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر شکار کی اجازت دیے جانے سے پرندوں کی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے بقول، ملک میں قانونی شکار سمیت ٹرافی ہنٹنگ پر بھی مکمل پابندی ہونی چاہیے۔
انہوں نے بطور مثال برفانی چیتے کی آبادی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 25 سال قبل پاکستان میں ان کی تعداد 300 سے زائد تھی، لیکن اب یہ کم ہو کر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 167 رہ گئی ہے، جو کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔