پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی اب عملی طور پر بانی چیئرمین کی بہن علیمہ خان کے کنٹرول میں چلی گئی ہے اور پارٹی کے اندر پالیسی فیصلے محدود حلقے میں ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے گورنر راج کی ممکنہ دھمکی کو سنجیدگی سے لیا ہے، جس کے بعد صوبائی سطح پر سیاسی رویے میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کو جب یہ احساس ہوا کہ گورنر راج ایک حقیقی خطرہ بن سکتا ہے تو اس کے بعد صوبائی قیادت نے اپنے دفاع کی حکمت عملی اپنانا شروع کر دی۔ ان کے مطابق اسی تناظر میں سہیل آفریدی کو بھی اپنے بچاؤ کی فکر لاحق ہو گئی ہے اور وہ اب وفاق کے مطالبات میں لچک دکھا رہے ہیں۔
شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ سہیل آفریدی اب ایسے مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ نظر آ رہے ہیں جنہیں پہلے مکمل طور پر رد کر دیا جاتا تھا۔ ان کے بقول یہ تمام صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی کے اندر فیصلے دباؤ اور مجبوری کے تحت ہو رہے ہیں، نہ کہ اصولی سیاست کے مطابق۔
انہوں نے ایک اور اہم دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو پارٹی پالیسی میں ممکنہ تبدیلیوں کی خبر تک نہیں ہونے دی گئی۔ ان کے مطابق پارٹی کے اندر فیصلہ سازی کا عمل شفاف نہیں رہا اور عملی طور پر پی ٹی آئی اب علیمہ خان کے زیرِ اثر آ چکی ہے، جس سے کارکنوں اور منتخب نمائندوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
نومبر 2024 میں عمران خان کی رہائی پر معاہدہ طے پا گیا تھا: شیر افضل مروت
دوسری جانب پروگرام میں شریک تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر نے شیر افضل مروت کے مؤقف سے اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اندر اختلافات ضرور موجود ہیں، تاہم وہ اتنے شدید نہیں کہ پارٹی کی مجموعی پالیسی کو متاثر کر سکیں۔ ان کے مطابق اندرونی اختلافات ہر بڑی جماعت میں ہوتے ہیں، مگر انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
مصطفی نواز کھوکھر نے واضح کیا کہ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی کو یہ ہدایت دی ہے کہ تمام اہم فیصلے محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس کی مشاورت سے کیے جائیں۔ ان کے مطابق یہ دونوں رہنما اپوزیشن کے درمیان رابطے کا کردار ادا کر رہے ہیں تاکہ ایک متفقہ سیاسی لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن جماعتیں اس وقت سڑکوں پر احتجاج کے بجائے سنجیدہ ڈائیلاگ کی حامی ہیں۔ ان کے بقول محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس دیگر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو ساتھ لے کر ایک مشترکہ اور قابلِ عمل حکمت عملی تیار کریں گے، جس کا مقصد سیاسی استحکام اور آئینی بالادستی کو فروغ دینا ہے۔
