رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی موجودہ قیادت میں نہ اتحاد باقی رہ گیا ہے، نہ ہی کوئی ایسی صلاحیت موجود ہے جو عوامی تحریک کو منظم کر سکے، جبکہ چیئرمین عمران خان کی جانب سے دی گئی 5 اگست کی تاریخ بھی بے اثر گزر جائے گی۔
کراچی میں جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے انکشاف کیا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کے چند افراد نے ان تک قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تنظیمی ڈھانچے پر قبضے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پارٹی اندرونی خلفشار کا شکار ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 5 اگست سے تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا، مگر پارٹی کی موجودہ قیادت نے خود ساختہ طور پر 90 دن کی تدریجی حکمتِ عملی اختیار کر لی، جو پارٹی کے بنیادی فیصلوں سے انحراف کے مترادف ہے۔
شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ موجودہ قیادت کی جانب سے کسی سنجیدہ عوامی تحریک کی تیاری نظر نہیں آ رہی۔ ان کے مطابق، نہ تحریک چلائی جائے گی، اور نہ ہی اس کی اہلیت پارٹی قیادت میں موجود ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ علیمہ خان کی سربراہی میں ایک گروپ پارٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو پارٹی عہدیداروں پر دباؤ ڈال کر یا الزامات کے ذریعے اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے، جس سے پارٹی میں اندرونی تقسیم مزید گہری ہو رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور کے اختیارات کم کرنے کے لیے جنید اکبر کو آگے لایا گیا، حالانکہ دونوں رہنماؤں کو باہمی ہم آہنگی سے کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے تھا۔ تاہم، وہ اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔
شیر افضل مروت نے واضح کیا کہ پارٹی کارکن آج بھی عمران خان کی سوچ پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، مگر موجودہ قیادت میں ایسا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں جو اس جذبے کو منظم تحریک میں تبدیل کر سکے۔
یاد رہے کہ عمران خان نے کچھ عرصہ قبل 5 اگست سے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم پارٹی کے بعض حلقوں نے اس کے بجائے 90 روزہ تدریجی حکمتِ عملی کو ترجیح دی، جس کے باعث اب پارٹی کے اندر کھلے عام اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔