اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ موجود رہنے والی خاتون شمع جونیجو کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں اور وزارتِ خارجہ کی وضاحت کے بعد اب شمع جونیجو نے خود تفصیلی بیان جاری کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری اپنے پیغام میں شمع جونیجو نے کہا کہ وہ کئی مہینوں سے وزیراعظم شہباز شریف اور پاکستان کے لیے پالیسی بریفس، مشاورت اور مختلف نکات پر کام کر رہی تھیں، جو ریکارڈ پر بھی موجود ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نے خود انہیں اقوام متحدہ کی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا اور سرکاری طور پر اپنے وفد میں شامل کیا۔ ان کے مطابق انہیں باضابطہ طور پر ایڈوائزر کا درجہ دیا گیا اور اسی حیثیت میں ان کا سکیورٹی پاس بھی جاری کیا گیا۔
شمع جونیجو کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم اور ٹیم کے ساتھ ایک ہی ہوٹل میں قیام پذیر رہیں، ان کی مختلف اہم ملاقاتوں میں شریک ہوئیں، اور وزیراعظم کی سائیڈ لائن میٹنگز بشمول بل گیٹس کے ساتھ اجلاس کا بھی حصہ تھیں، جس کی فوٹیج بھی نشر ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ کلائیمیٹ کانفرنس اور اے آئی کانفرنس میں بھی موجود رہیں، جہاں وزیر دفاع خواجہ آصف اور دیگر حکومتی شخصیات کے ساتھ براہ راست شریک تھیں۔ ان کے بقول ان مواقع پر وہ نہ صرف تقریر کی تیاری میں شامل رہیں بلکہ سرکاری وفد کے ساتھ پروٹوکول کے تحت موجود رہیں۔
میں پچھلے کئی مہینوں سے پاکستان اور وزیراعظم صاحب @CMShehbaz کے لئے کام کر رہی تھی!
پاک بھارت جنگ کے دوران میرے پالیسی بریفس، ایڈوائس، اور پوائنٹس، سب کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے اور محفوظ ہے۔
مجھے وزیراعظم صاحب نے اقوام متحدہ کی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا۔ اور خود وفد کا حصہ بنایا۔… pic.twitter.com/YTED1ZKx1N— Dr Shama Junejo (@ShamaJunejo) September 28, 2025
شمع جونیجو نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی تاریخی تقریر ان کا اکیلا کام نہیں بلکہ پوری ٹیم کی محنت کا نتیجہ تھی۔ وہ آخر دن بھی وفد کے ساتھ اقوام متحدہ کے اجلاس میں موجود رہیں اور وزیراعظم کی تقریر کے دوران تالیاں بجانے والوں میں شامل تھیں۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر وہ وفد کا حصہ نہیں تھیں تو پھر سرکاری سطح پر انہیں سکیورٹی پاس، پروٹوکول اور اہم اجلاسوں میں رسائی کیسے ملی؟ ان کے مطابق:
"اب خواجہ آصف ایسے بیانات کیوں دے رہے ہیں اور کس ایجنڈے کے تحت اپنی ہی حکومت کے ایک تاریخی دورے کو متنازع بنا رہے ہیں، یہ سوال وزیراعظم کو ان سے کرنا چاہیے، کیونکہ یہ ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا ہے، میری نہیں۔”