پشاور ہائی کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کا کم از کم 10 فیصد بجٹ جوڈیشل انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے مختص کیا جائے۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس کی ہدایت پر چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کو باقاعدہ خط ارسال کر دیا گیا ہے، جس میں جوڈیشل سسٹم کو درپیش سنگین مالی مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق صوبے بھر بشمول ضم شدہ اضلاع میں عدالتی عمارات، سہولیات اور ڈھانچے کی شدید کمی ہے، جس سے انصاف کی فراہمی میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے۔ عدالت نے انکشاف کیا ہے کہ سال 2023 میں پشاور ہائی کورٹ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اے ڈی پی میں نہایت کم بجٹ مختص کیا گیا، جس کے باعث کئی منصوبے مکمل نہ ہو سکے، حتیٰ کہ بعض منصوبے جو 2013 میں شروع کیے گئے تھے، وہ بھی اب تک پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچے۔
عدالت نے واضح کیا کہ گزشتہ اے ڈی پی میں صرف 7 ارب روپے مختص کیے گئے، جو کل ترقیاتی بجٹ کا محض 2.8 فیصد بنتے ہیں۔ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کی جانب سے یہ رقم کم کر کے 6 ارب روپے کر دی گئی، جس پر عدلیہ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ہائی کورٹ کا مؤقف ہے کہ کم بجٹ کے باعث نظامِ عدل کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے اور عوام کو بروقت انصاف فراہم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ہائی کورٹ نے اپنی جانب سے حکومت کو بھجوائے گئے فائنل اے ڈی پی ڈرافٹ میں 6 ارب 33 کروڑ روپے کی باضابطہ درخواست کی ہے تاکہ جاری منصوبے مکمل کیے جا سکیں اور عدالتی انفراسٹرکچر کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ خیبرپختونخوا میں عدالتی انفراسٹرکچر کی کمی اور بجٹ کی غیر مساوی تقسیم ماضی میں بھی عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختلافات کا باعث بنتی رہی ہے، تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے اے ڈی پی بجٹ میں واضح تناسب سے حصہ مانگا ہے۔