پاکستان کی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان نے تمام دفاعی اقدامات مکمل طور پر اپنی داخلی صلاحیتوں کی بنیاد پر کیے، اور کسی بیرونی ملک، بشمول چین، سے عملی مدد نہیں لی گئی۔
سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کے موقع پر بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر کو دیے گئے انٹرویو میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا چین نے پاکستان کی سیٹلائٹ سروسز میں مدد فراہم کی، تو جنرل مرزا نے واضح کیا کہ پاکستان نے تنازع کے دوران جو بھی ٹیکنالوجی یا آلات استعمال کیے، وہ یا تو اپنے وسائل سے حاصل کیے گئے یا ماضی میں خریدے گئے تھے، مگر حقیقی وقت میں کوئی بیرونی تعاون شامل نہیں تھا۔
جنرل مرزا نے مزید کہا کہ حالیہ کشیدگی ماضی کی نسبت مختلف نوعیت کی تھی۔ پہلے چھوٹی جھڑپیں صرف متنازع علاقوں میں ہوتی تھیں، لیکن اس بار صورتحال بین الاقوامی سرحدوں کے قریب شہری علاقوں تک جا پہنچی، جو غیر معمولی اور تشویشناک ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اب حالات اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی تنازع بہت جلد مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے، جس سے صرف مخصوص علاقے ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان اور پورا انڈیا متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے اثرات ڈیڑھ ارب افراد کی معیشت، سرمایہ کاری اور ترقی پر بھی پڑیں گے۔
جنرل مرزا نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات سے نمٹنے کا کوئی مضبوط یا مؤثر نظام موجود نہیں۔ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (DGMO) کے درمیان ہفتہ وار ہاٹ لائن ہی واحد رسمی رابطہ ہے، جو بلاشبہ اہم ہے، مگر ایسے سنگین حالات کے لیے ناکافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تنازعے کے دوران عالمی برادری کے پاس مداخلت کا وقت کم ہو اور دوسری طرف ایک ایسا ہمسایہ ملک ہو جو غیر ذمہ دارانہ بیانات اور اقدامات سے پیچھے نہ ہٹے، تو تنازعات کے شدت اختیار کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے عالمی برادری کو بروقت اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔