اسلام آباد: حکومت پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں گاڑیوں کی درآمد سے متعلق اہم اصلاحات پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت بیگیج اور گفٹ اسکیمز کو مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ رہائش کی تبدیلی پر مبنی درآمدی اسکیم کو مزید سخت بنایا جائے گا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے گورننس اور بدعنوانی سے متعلق تشخیصاتی رپورٹ کی روشنی میں، پاکستان پر زور دیا گیا کہ گاڑیوں کی درآمد میں جاری سہولیات کا خاتمہ کیا جائے۔ بیگیج رولز اور گفٹ اسکیم، جو ماضی میں گاڑیوں کی غیر تجارتی درآمد کے لیے استعمال ہوتی تھیں، اب ختم کی جارہی ہیں۔ ان اسکیمز کا اکثر غلط استعمال کیا جاتا تھا، جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ پڑتا رہا۔
ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جائے گا، البتہ اس کے اصول مزید سخت کیے جائیں گے۔ نئی شرائط کے مطابق صرف وہی افراد گاڑی درآمد کرنے کے اہل ہوں گے جنہوں نے کم از کم ایک سال سے زیادہ عرصہ بیرون ملک قیام کیا ہو، اور وہ گاڑی اسی ملک سے درآمد کر سکیں گے جہاں وہ مقیم تھے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، ماضی میں گاڑیاں جاپان یا برطانیہ سے دبئی کے ذریعے پاکستان لائی جاتی تھیں، لیکن اب ایسے طریقہ کار کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کو قانونی شکل دینے کے لیے معاملہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) اور کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
5 سال تک استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد
آئی ایم ایف نے ان اصلاحات کے نفاذ کے لیے پاکستان کو واضح ڈیڈلائن دی ہے۔ یہ اصلاحات 7 ارب ڈالر کے Extended Fund Facility (EFF) پروگرام کے دوسرے جائزے کا حصہ ہیں۔ ان پر عملدرآمد کے بعد پاکستان کو 1.4 ارب ڈالر میں سے 400 ملین ڈالر کی پہلی قسط جاری کی جائے گی۔
اس کے علاوہ، آئی ایم ایف کی کرپشن رپورٹ کی روشنی میں حکومتی سطح پر بھی اصلاحات کی سفارش کی گئی ہے۔ ٹاسک فورس نے تجویز دی ہے کہ گریڈ 17 سے 22 کے سرکاری افسران اور ان کے اہل خانہ کے اثاثے عوام کے سامنے لانے کے لیے سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترامیم کی جائیں۔ نیب، ایف آئی اے اور الیکشن قوانین میں بھی اصلاحات کی تجاویز زیر غور ہیں۔
سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کے امیگریشن افسران کو دیگر ذمہ داریوں سے الگ کر کے بہتر تربیت دی جائے اور ہوائی اڈوں پر ان کی جگہ کوئی اور فورس تعینات کی جائے۔ عوامی آگاہی کے لیے خصوصی مہم چلانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔