اسلام آباد: توانائی کے بحران کا شکار پاکستان نے شمسی توانائی (سولر پاور) کے شعبے میں ایک بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے دنیا کے ان چند ممالک میں جگہ بنا لی ہے جہاں مجموعی بجلی کی طلب کا کم از کم 25 فیصد حصہ سورج کی روشنی سے پیدا کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی ادارے "ایمبر” اور "رائٹرز” کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق سال 2025 کے ابتدائی چار ماہ میں پاکستان کی یوٹیلیٹی سپلائی میں شمسی توانائی کا حصہ اوسطاً 25.3 فیصد رہا۔ یہ پیش رفت نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر ایک قابلِ ذکر کامیابی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی موجودہ شرح نے پاکستان کو خطے کے دیگر ممالک پر برتری دلا دی ہے۔ تقابل کے طور پر، اسی مدت میں امریکہ میں 11 فیصد، چین میں 8 فیصد اور یورپ میں مجموعی طور پر 7 فیصد بجلی شمسی ذرائع سے حاصل کی گئی۔
2023 میں پاکستان میں سولر پاور بجلی کے حصول کا پانچواں بڑا ذریعہ تھا، لیکن صرف دو سال کے مختصر عرصے میں یہ شعبہ اتنی تیزی سے ترقی کر گیا کہ 2025 میں شمسی توانائی پاکستان کا سب سے بڑا بجلی کا ذریعہ بن گیا ہے۔
پاکستان اب دنیا کے ان کم از کم 20 ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو اپنی ماہانہ بجلی کی طلب کا 25 فیصد یا اس سے زیادہ حصہ شمسی توانائی سے حاصل کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ آسٹریلیا، بیلجیئم، بلغاریہ، چلی، قبرص، ڈنمارک، ایسٹونیا، جرمنی، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، نیدرلینڈز، لکسمبرگ، پرتگال اور اسپین شامل ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں سورج سال کے تقریباً 300 دن مکمل چمکتا ہے، جو شمسی توانائی کے فروغ کے لیے ایک نایاب نعمت ہے۔ اس نعمت کا مؤثر استعمال اب واضح طور پر بجلی کی پیداوار میں دکھائی دے رہا ہے، جو نہ صرف ملک کے توانائی بحران پر قابو پانے میں مددگار ہے بلکہ بجلی کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے کی سمت ایک امید افزا قدم بھی ہے۔
پاکستان کو توانائی کے نظام میں بے شمار چیلنجز درپیش ہیں، جن میں بنیادی ڈھانچے کی کمزوری، گرڈ کے مسائل اور مالی مشکلات شامل ہیں۔ تاہم، شمسی توانائی کا بڑھتا ہوا استعمال اس بات کی علامت ہے کہ اگر مؤثر پالیسی سازی اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے تو ملک اپنی توانائی کی ضروریات کا بڑا حصہ خود پورا کر سکتا ہے۔