پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عندیہ دیا ہے کہ ملک میں فائیو جی ٹیکنالوجی کے لیے درکار اسپیکٹرم لائسنس آئندہ سال فروری یا مارچ میں جاری کیے جا سکتے ہیں۔ طویل تاخیر کے بعد یہ اعلان پاکستان میں ڈیجیٹل ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی سمت ایک بڑے پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پی ٹی اے کے چیئرمین کے مطابق فائیو جی لائسنسنگ کا عمل اب آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے، اور اتھارٹی تکنیکی، ریگولیٹری اور مالی امور کا مفصل جائزہ لے رہی ہے۔ ان کے بقول مقصد یہ ہے کہ اسپیکٹرم کی فراہمی نہ صرف شفاف ہو بلکہ عالمی معیار کے مطابق ہو، تاکہ پاکستان میں فائیو جی خدمات کے آغاز کے بعد کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
فائیو جی ٹیکنالوجی کو دنیا بھر میں تیز رفتار انٹرنیٹ، کم ترین لیٹینسی اور زیادہ مستحکم کنیکٹیویٹی کی بدولت مستقبل کی ڈیجیٹل معیشت کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کے اجراء سے مواصلاتی ڈھانچے میں نمایاں بہتری آئے گی، انٹرنیٹ اسپیڈ مزید تیز ہو گی، اور نئی ایڈوانسڈ سروسز کے لیے راستہ ہموار ہوگا۔ توقع ہے کہ صنعتی شعبوں میں خودکاری، اسمارٹ سٹی منصوبے، ای-ہیلتھ، ای-ایجوکیشن اور ریموٹ ورکنگ جیسے میدانوں میں بھی نئی راہیں کھلیں گی۔
پاکستان میں فائیو جی کے منتظر صارفین کے لیے بری خبر
ٹیکنالوجی تجزیہ کاروں کے مطابق فائیو جی کا آغاز ملکی ڈیجیٹل اکانومی کو براہِ راست تقویت دے گا۔ اس سے آئی ٹی ایکسپورٹس بہتر ہوں گی، اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم مضبوط ہو گا اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مقامی منصوبوں کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔ مزید یہ کہ عالمی سرمایہ کار بھی پاکستانی ٹیلی کام اور آئی ٹی مارکیٹ میں دلچسپی بڑھا سکتے ہیں۔
پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اس عمل کو تیز کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان خطے کے اُن ممالک میں شامل ہو سکے جو جدید کنیکٹیویٹی کے ذریعے اپنی معیشتوں کو تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں۔ اگر لائسنسنگ کا عمل پلان کے مطابق مکمل ہو گیا، تو 2025 کے وسط تک ملک کے بڑے شہروں میں فائیو جی خدمات کے آغاز کی امید کی جا رہی ہے۔
