پاکستان کی معیشت میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ترسیلات زر نہ صرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرتی ہیں بلکہ تجارتی خسارہ کم کرنے اور روپے کو دباؤ سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں حکومت اور اسٹیٹ بینک نے قانونی ذرائع کو فروغ دینے کے لیے کئی سہولتیں متعارف کروائی ہیں، تاکہ غیر رسمی چینلز کی حوصلہ شکنی ہو۔
لندن میں پاکستان ریمیٹنس سمٹ کے اہم انکشافات
لندن میں منعقدہ پانچویں پاکستان ریمیٹنس سمٹ کے منتظم فہیم فاروقی نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان آنے والی تمام رقوم قانونی ذرائع سے بھیجی جائیں تو سالانہ ترسیلات کا مجموعی حجم 50 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق غیر رسمی طریقوں کی وجہ سے بڑی رقم باضابطہ نظام میں شامل نہیں ہو پاتی، جس سے ملکی معیشت کو براہِ راست فائدہ نہیں ملتا۔
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کا کردار
اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ڈاکٹر عنایت حسین نے تقریب میں بتایا کہ “روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ” کے ذریعے اب تک گیارہ ارب ڈالر سے زائد کی رقم پاکستان منتقل کی جا چکی ہے۔ یہ نظام بیرونِ ملک پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری، بچت اور رقوم کی منتقلی کے آسان اور محفوظ مواقع فراہم کرتا ہے۔
یہ اسکیم 2020 میں متعارف کرائی گئی تھی اور اسے بین الاقوامی سطح پر ایک کامیاب ڈیجیٹل مالی ماڈل کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔
اکاؤنٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد
پاکستان ریمیٹنس انیشی ایٹو کے سربراہ سید علی رضا کے مطابق اب تک 8 لاکھ 73 ہزار سے زیادہ روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاؤنٹس کھلوائے جا چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بیرونِ ملک پاکستانی قانونی اور شفاف مالی نظام پر بڑھتا ہوا اعتماد ظاہر کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ رفتار برقرار رہی تو آنے والے برسوں میں ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔
مستقبل کے امکانات
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہنڈی اور حوالہ جیسے غیر قانونی ذرائع مکمل طور پر ختم کیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اس کے لیے آگاہی، سہولتوں میں مزید اضافہ اور اعتماد کی فضا قائم رکھنا ضروری ہے۔
اگر قانونی چینلز کو مزید مضبوط کیا گیا تو پاکستان کو نہ صرف زیادہ زرمبادلہ حاصل ہوگا بلکہ معیشت کو طویل المدتی استحکام بھی مل سکتا ہے۔
