چارسدہ میں گفتگو کے دوران مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی سے اختلافات ختم نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن تعلقات میں میانہ روی کی خواہش ظاہر کی۔
چارسدہ: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ ان کے اختلافات بدستور قائم ہیں، تاہم انہوں نے زور دیا کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اختلافات کو صرف سیاسی دائرے تک محدود رکھا جائے اور اعتدال کی روش اپنائی جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے خیبرپختونخوا میں جاری سیاسی بحران اور اپوزیشن کے طرزِ عمل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں، بشمول مسلم لیگ (ن)، عدالتوں سے رجوع کر کے جے یو آئی کے منتخب نمائندوں کی رکنیت معطل کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ مسلم لیگ (ن) کو کیا احساس ہے کہ ان اقدامات سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟ مولانا نے کہا کہ ایسی اپوزیشن کے ساتھ کسی بھی تحریک میں شامل ہونے سے پہلے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر حکومتی اتحاد ہمیں گالیاں دے اور اپوزیشن ہمارے خلاف عدالتوں میں جائے تو ایسی صورتحال میں کسی تحریکِ عدم اعتماد کا ساتھ دینا ممکن نہیں۔ ان کے مطابق خیبرپختونخوا میں "حقیقی تبدیلی” کی ضرورت ہے، جو پی ٹی آئی کے اندر سے آنی چاہیے۔
افغانستان سے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں، کیونکہ مسائل کا حل صرف بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھے تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
امن و امان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ قیامِ امن حکومت اور ریاستی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے، مگر بدقسمتی سے عملی اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ریاست چاہے تو امن قائم کیا جا سکتا ہے، لیکن موجودہ حکومت کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔
یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمان حالیہ دنوں میں نہ صرف وفاقی سطح بلکہ خیبرپختونخوا کی غیر یقینی سیاسی صورتحال پر بھی مسلسل تحفظات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے سنجیدہ، حقیقت پسندانہ اور مشاورت پر مبنی سیاسی حکمتِ عملی اپنانا ناگزیر ہے۔