اسلام آباد: سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس جاری ہے، تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔
کمیٹی کی صدارت فاروق ایچ نائیک اور محمود بشیر ورک کر رہے ہیں۔ اجلاس میں سینیٹر طاہر خلیل سندھو، سینیٹر ہدایت اللہ، سینیٹر شہادت اعوان، سینیٹر ضمیر حسین گھمرو، علی حیدر گیلانی، سائرہ افضل تارڑ، بلال اظہر کیانی، سید نوید قمر اور ابرار شاہ شریک ہیں۔ اس کے علاوہ سیکرٹری وزارت قانون و انصاف راجا نعیم اکبر سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود ہیں۔
کمیٹی مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کی شقوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد شق وار منظوری دے گی۔
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر فوجداری مقدمات میں وزیراعظم کے استثنیٰ سے متعلق ترمیم واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم صدرِ مملکت کے تاحیات استثنیٰ کا معاملہ تاحال زیر غور ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی ہدایت پر سینیٹر انوشہ رحمان نے ترمیم واپس لے لی، جسے چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے سراہا۔
کمیٹی کے اراکین نے اپوزیشن کی غیر حاضری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم آئینی عمل ہے اور اپوزیشن کا دور رہنا افسوسناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی خلوص نیت سے اپنا کام مکمل کرے گی کیونکہ 27ویں ترمیم ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے نہایت اہم ہے۔
اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تمام جماعتوں کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے، آج تمام تجاویز پر غور کیا جائے گا اور اکثریتی رائے کے مطابق فیصلے کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امید ہے شام 5 بجے تک ترمیمی نکات کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ترجمان اسلم غوری نے کمیٹی سے سینیٹر کامران مرتضیٰ کو نکالنے پر شدید ردعمل دیا اور اسے "بدترین آمریت” قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ کامران مرتضیٰ کا نام پہلے کمیٹی کے نوٹیفکیشن میں شامل تھا، تاہم اختلافی رائے کے خدشے پر انہیں ہٹا دیا گیا، جو جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔
ترجمان جے یو آئی نے کہا کہ کمیٹی پارلیمنٹ کی پراپرٹی ہے، حکومت اسے ن لیگ کی جاگیر نہ سمجھے، جمہوریت کے نام پر آمریت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور پورے جمہوری نظام کو لپیٹنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
