ممتاز ادیب اور صاحبِ طرز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی ساتویں برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی، ان کی تخلیقات آج بھی اردو ادب کے قارئین کو محظوظ کرتی ہیں
کراچی: اردو زبان کے عظیم مزاح نگار اور صاحبِ طرز ادیب مشتاق احمد یوسفی کی ساتویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔ یوسفی صاحب اردو ادب میں طنز و مزاح کی ایسی انوکھی اور شائستہ مثال چھوڑ گئے ہیں، جو آج بھی قارئین کو محظوظ کرتی ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا باعث ہے۔
مشتاق احمد یوسفی نے 1955ء میں "صنفِ لاغر” کے نام سے مزاح نگاری کا آغاز کیا، جو معروف ادبی جریدے "سویرا” میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کی تحریروں کا سلسلہ ایسا چلا کہ اردو ادب کا ہر ذوق رکھنے والا قاری ان کے اسلوب کا گرویدہ ہوتا گیا۔ ان کی مشہور کتابیں "چراغ تلے”، "خاکم بدہن”، "زرگزشت” اور "آبِ گم” آج بھی مزاح نگاری کی معیاری مثال سمجھی جاتی ہیں۔
یوسفی کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان میں پھکڑ پن نہیں بلکہ تہذیب، شائستگی، لطافت اور اعلیٰ طنز موجود ہوتا تھا۔ ان کے لطیف جملے، پرمعنی فقرے اور برجستہ انداز اردو زبان میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی بڑے اعزازات سے نوازا گیا، جن میں آدم جی ایوارڈ، ہلالِ امتیاز، ستارۂ امتیاز اور پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز ایوارڈ شامل ہیں۔ وہ 20 جون 2018 کو کراچی میں طویل علالت کے بعد اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ مشتاق احمد یوسفی نہ صرف اردو مزاح کے ستون سمجھے جاتے ہیں بلکہ ان کی تحریروں نے طنز و مزاح کو ادب کا اعلیٰ مقام عطا کیا۔ ان کا اسلوب، لطیف جملے اور نکتہ آفرینی آج بھی ادب کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔