اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے منعقد کی گئی دو روزہ کانفرنس میں سیاسی کشیدگی کم کرنے اور جمہوری ڈائیلاگ کے آغاز پر زور دیا گیا۔ کانفرنس میں مختلف سیاسی رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور موجودہ سیاسی صورتحال پر تشویش ظاہر کی۔
محمود خان اچکزئی کا مؤقف
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں جمہوری ڈائیلاگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ سیاسی قوتیں ایک دوسرے کو معاف کریں۔ ان کے بقول، ہم معاف کرنے کے لیے تیار ہیں اور مفاہمت چاہتے ہیں۔
نئی شروعات کی دعوت
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جنید اکبر نے کہا کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے نئی شروعات ضروری ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر بیٹھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی اصلاح کریں گے اور دوسروں کو بھی یہی موقع دینا چاہیے۔
فیصلوں پر عوامی مایوسی کا خدشہ
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ حالیہ فیصلوں سے عوام میں مایوسی پھیلتی ہے۔ ان کے مطابق جب عوامی توقعات کے برعکس فیصلے آتے ہیں تو نظام پر اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ انہوں نے شفافیت اور انصاف پر مبنی فیصلوں کی ضرورت پر زور دیا۔
توشہ خانہ ٹو پر ردعمل
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ انہیں آج توشہ خانہ ٹو کے فیصلے کی توقع نہیں تھی۔ ان کے مطابق اپوزیشن اقتدار کی نہیں بلکہ اصولوں کی جنگ لڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جدوجہد کا مقصد نظام کو درست کرنا ہے۔
مکالمے کی ضرورت پر زور
سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا کہ وہ ٹکراؤ کی سیاست کے حامی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مسلسل مکالمے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ تاہم ان کے مطابق بات آگے نہیں بڑھ پاتی، جو ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔
پُرامن سیاسی جدوجہد
نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا کہ ملک کو پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے آگے بڑھانا ہوگا۔ انہوں نے تشدد اور محاذ آرائی سے گریز کی ضرورت پر زور دیا۔
کانفرنس کے اختتام پر مجموعی پیغام یہی دیا گیا کہ سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ ناگزیر ہے۔ رہنماؤں کے مطابق مفاہمت اور برداشت ہی جمہوریت کو مضبوط بنا سکتی ہے۔
