جسٹس امجد رفیق نے تحریری فیصلے میں صغیر حسین کی اپیل مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ سزا معافی کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، مجرم کی رہائی کا حق باقی نہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے قتل کے مقدمے میں 100 سال کی سزا پانے والے مجرم، صغیر حسین، کی رہائی کے لیے دائر اپیل خارج کر دی ہے۔ جسٹس امجد رفیق نے اس کیس پر 11 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں متعدد قانونی نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق مجرم صغیر حسین نے اپنی رہائی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ 1989 سے جیل میں قید ہے۔ ابتدائی طور پر صغیر کو تین بار سزائے موت اور ایک بار عمر قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے تین بار عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ یوں مجموعی سزا 100 برس بن گئی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ صغیر نے دورانِ ٹرائل ڈیڑھ سال قید کی چار بار گنتی کرانے کی استدعا کی، مگر قانون کے مطابق ایک ہی بار شمار کی جائے گی۔ عدالت نے وضاحت کی کہ اگر سزا سنگل شمار ہوتی ہے تو 382-B کے تحت ٹرائل کی مدت صرف ایک بار ہی کم کی جا سکتی ہے۔
عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مجرم کی سزا میں سے 59 سال کیسے معاف کیے گئے، اس کا کوئی قانونی ریکارڈ موجود نہیں۔ پریزن رولز کے مطابق ایک عمر قید کی مدت 25 سال تصور کی جاتی ہے اور سزا میں معافی کی درخواست مخصوص حکومتی عمل سے مشروط ہے۔
جسٹس امجد رفیق نے فیصلے میں لکھا کہ اگرچہ صغیر حسین نے کئی برس جیل میں گزارے ہیں، مگر رہائی کے لیے جو قانونی تقاضے اور طریقہ کار درکار ہے، وہ پورا نہیں کیا گیا۔ عدالت نے اس بنیاد پر اپیل کو خارج کر دیا اور مجرم کو بقیہ ساڑھے چار برس قید مکمل کرنے کا حکم برقرار رکھا۔
یاد رہے کہ صغیر حسین کو 1989 میں لاہور کے تھانہ وحدت کالونی میں درج قتل کے مقدمے میں تین بار سزائے موت اور ایک بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اب تک وہ تقریباً 35 سال قید کاٹ چکا ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ رہائی کا فیصلہ قانون اور ریکارڈ کی روشنی میں ہی ہو سکتا ہے، ذاتی استدلال پر نہیں۔