بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ضم شدہ اضلاع پر خیبرپختونخوا سے مشاورت کے بغیر کمیٹی کی تشکیل قابل قبول نہیں، امیر مقام مسترد شدہ شخصیت ہیں۔
پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے ضم شدہ قبائلی اضلاع سے متعلق وفاقی سطح پر قائم کردہ کمیٹی پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کے دوران وزیراعلیٰ کے نمائندے کے طور پر خیبرپختونخوا حکومت کا مؤقف دوٹوک انداز میں پیش کیا۔
بیرسٹر سیف نے اجلاس میں کہا کہ خیبرپختونخوا کو نہ تو اس کمیٹی کی تشکیل میں شامل کیا گیا، نہ کوئی مشاورت کی گئی، حالانکہ ضم شدہ اضلاع نہ صرف صوبے کا حصہ ہیں بلکہ ان کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر بھی خیبرپختونخوا ہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اضلاع کی حساس نوعیت کے باعث کسی بھی پالیسی تبدیلی یا انتظامی فیصلے سے قبل صوبائی حکومت کو اعتماد میں لینا آئینی اور اخلاقی ضرورت ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ "ضم شدہ اضلاع سے متعلق فیصلہ سازی میں خیبرپختونخوا کو نظرانداز کیوں کیا گیا؟” ساتھ ہی کمیٹی میں شامل افراد کے انتخاب پر بھی اعتراض کیا۔ بیرسٹر سیف نے امیر مقام کی شمولیت پر خاص طور پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ایک مسترد شدہ شخصیت، جو فارم 47 کے سہارے ایوان میں پہنچی ہو، اسے قبائلی علاقوں پر فیصلے کرنے کا کوئی اخلاقی یا جمہوری جواز حاصل نہیں۔”
یہ بھی پڑھیں: حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، 5 سال پورے کریں گے، بیرسٹر سیف
مشیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت ضم اضلاع سے متعلق کسی بھی ایسے فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گی جو مشاورت کے بغیر اور صوبائی خودمختاری کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا جائے۔
یاد رہے کہ سابق فاٹا کے اضلاع 2018 میں آئینی طور پر خیبرپختونخوا میں ضم کیے گئے تھے، تاہم انضمام کے باوجود انتظامی، معاشی اور سماجی چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ بنیادی سہولیات، سیکیورٹی، مقامی خودمختاری اور عوامی نمائندگی جیسے امور پر اب بھی خاطرخواہ پیش رفت درکار ہے۔