وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا کہ 1980 کی دہائی میں شروع کی گئی اسلامائزیشن کی مہم دراصل امریکی مفادات کے لیے تھی، نہ کہ دین کے نفاذ کے لیے۔
انہوں نے کہا کہ افغان جہاد کے دوران پاکستان کے تعلیمی نصاب کو دانستہ طور پر تبدیل کیا گیا تاکہ جنگی نظریہ فروغ پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں بتایا گیا کہ یہ دین کی خدمت ہے، مگر حقیقت میں یہ نصاب امریکا کی یونیورسٹی آف نبراسکا سے تیار ہو کر آیا تھا۔”
خواجہ آصف نے موجودہ معاشرتی اور مذہبی انتہاپسندی کا ذمہ دار اسی نصاب کو قرار دیا۔ ان کے مطابق آج اسلام آباد میں ہزاروں مدارس موجود ہیں، جب کہ 80 کی دہائی میں ان کی تعداد صرف دو سے تین ہزار تھی۔ انہوں نے کہا کہ “مدارس اب سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے تعمیر ہو رہے ہیں، اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔”
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ لوکل گورنمنٹ نظام کو ہمیشہ فوجی آمروں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ ان کے بقول “سب سے پہلے ایوب خان نے اسے سیاسی کنٹرول کے لیے استعمال کیا، اور آج بھی ہم اپنے اختیارات نچلی سطح تک دینے کو تیار نہیں۔”
خواجہ آصف نے کہا کہ اگر مقامی حکومتوں کو ٹیکس اکٹھا کرنے کے اختیارات دیے جائیں تو وہ مقامی اسپتالوں اور اسکولوں کو بہتر طور پر چلا سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو ان اصلاحات پر متحدہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔
آخر میں انہوں نے خبردار کیا کہ ملک کے قومی تشخص پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں، اور اگر ایسے اقدامات جاری رہے تو یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
