5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے 6 سال مکمل، پاکستان میں یومِ استحصال بھرپور طریقے سے منایا گیا، بھارت کے مظالم بے نقاب
لاہور: بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کو آج 6 برس مکمل ہو گئے ہیں۔
5 اگست 2019 کو نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35ـاے کو منسوخ کر کے ریاست جموں و کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کر دی تھی، جس کے نتیجے میں خطے میں شدید فوجی محاصرہ نافذ کیا گیا، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں اور ہزاروں کشمیریوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔
پاکستان بھر میں آج یومِ استحصالِ کشمیر بھرپور طریقے سے منایا جا رہا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیوں، سیمینارز، اور تقاریب کا انعقاد کیا گیا ہے جن کا مقصد مظلوم کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار اور بھارت کے غیر آئینی و جابرانہ اقدامات کو بے نقاب کرنا ہے۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ سے ڈی چوک تک نکالی جانے والی ریلی میں سرکاری افسران، سول سوسائٹی اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ریلی کے اختتام پر تحریکِ آزادی کشمیر کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کی جانب سے بھی آج یومِ سیاہ منانے کی اپیل کی گئی ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ کشمیری عوام آج بھی بھارت کے جبری قبضے اور آئینی ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق 5 اگست 2019 کے بعد سے اب تک بھارت نے 1,100 سے زائد گھروں اور املاک کو نذرِ آتش کیا، جب کہ 21,000 سے زائد کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر جیلوں میں قید رکھا گیا۔ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں نئی حلقہ بندیوں کے ذریعے مسلم اکثریتی علاقوں کی نمائندگی محدود کرنے کی کوشش کی، جہاں اسمبلی نشستوں کی تعداد 83 سے 90 کر دی گئی، مگر مسلم اکثریتی علاقوں کو صرف 1 فیصد اضافی نمائندگی دی گئی۔
مزید برآں، 56 ہزار ایکڑ اراضی بھارتی فوج کے قبضے میں دے دی گئی ہے، اور نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت 50 لاکھ سے زائد ہندوؤں کو کشمیر میں بسانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مقبوضہ علاقے کے مسلم تشخص کو ختم کیا جا سکے۔
مبصرین کے مطابق مودی سرکار کے یہ اقدامات نہ صرف بھارت کے اپنے آئین بلکہ بین الاقوامی قوانین اور جنیوا کنونشن 4 کے آرٹیکل 49 کی بھی کھلی خلاف ورزی ہیں۔