وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پہلے روز ہی واضح ہو گیا تھا کہ مذاکراتی اختیار کابل حکومت کے پاس نہیں ہے اور افغان وفد کے مؤقف میں بار بار تبدیلیاں اسی بیرونی کنٹرول کی وجہ سے آئیں۔ جیو نیوز کے پروگرام "آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ” میں گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ جب معاہدے کے قریب پہنچتے تو کابل سے رابطے کے بعد معاہدہ ٹوٹ جاتا رہا اور کئی بار یہی سلسلہ دہرایا گیا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ افغان وفد نے بڑی محنت کی اور ان کے ساتھ ہمدردی ہے، مگر کابل میں بیٹھ کر جو ہاتھ کھینچ رہے تھے ان کے پیچھے "دہلی” کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں رکھتے، اس لیے ایک گروپ کی زبانی یقین دہانیوں پر معیارِ اعتماد نہیں رکھا جا سکتا۔
وزیرِ دفاع نے شدید انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے اگر اسلام آباد کی طرف آنکھ اٹھائی تو "ہم آنکھیں نکال دیں گے” — یہ الفاظ انہوں نے اس تاثر کے تناظر میں کہ بھارت کابل کے ذریعے پاکستان کے خلاف تلافی کر رہا ہے، کہے۔ خواجہ آصف نے واضح کیا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ شروع کی ہوئی ہے اور ماضی میں طالبان کی حمایت کرنے والوں کے خلاف مقدمات چلنے چاہئیں چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔
مذاکرات ناکام، پاکستان دہشت گردی کے خلاف آپریشنیں جاری رکھے گا
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ مذاکرات مکمل طور پر شفاف انداز میں ہوئے اور صوبائی مفادات کو مجروح نہیں ہونے دیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے والا نہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا کی منتخب حکومت کا احترام کیا جائے گا۔
غزہ میں فوج بھیجنے کے امکان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے ممکن ہو تو کردار ادا کرنے کو تیار ہوں گے، البتہ اس ضمن میں پارلیمنٹ اور متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
