اسلام آباد، سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر حکومتی نظرثانی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ "فیصلے میں ووٹ کو بنیادی حق قرار دیا گیا، حالانکہ ووٹ بنیادی حق نہیں ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “تین دن کی مدت کو بڑھا کر پندرہ دن کرنا آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔”
سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس صلاح الدین پنہور اور دیگر شامل تھے۔
بینچ اور وکلاء کے درمیان مکالمہ
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ عدالت نے آئین کو ری رائٹ نہیں کیا بلکہ صرف تشریح کی ہے۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ "کیا جج آئینی اسکوپ سے باہر جا کر فیصلے دے سکتے ہیں، چاہے وہ جمہوریت یا عوامی امنگوں کے حق میں ہی کیوں نہ ہوں؟”
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی اور اقلیتی ججز دونوں نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کیا تھا، لہٰذا نظرثانی کی بنیاد کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی ریمارکس دیے کہ نظرثانی کے فریقین نے جس فیصلے کو چیلنج کیا، وہ عدالت کے سامنے پڑھا ہی نہیں گیا۔
وکیل فیصل صدیقی اور عدالت کے درمیان دلچسپ مکالمے
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ انہیں حال ہی میں کچھ اضافی گزارشات موصول ہوئی ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد ہی مکمل جواب دیا جا سکتا ہے۔ دورانِ سماعت مختلف ججز نے ان کے دلائل پر تبصرہ بھی کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ "آپ کی فلم تو فلاپ ہو جائے گی،” جس پر وکیل نے جواب دیا، "فیصلہ آپ کا ہے، ہمیں قبول ہوگا۔”
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو جان بوجھ کر ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا، اور انہیں انتخابات میں آزاد قرار دے دیا گیا، حالانکہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ جماعت انتخابات لڑتی ہے، انتخابات امیدوار لڑتے ہیں۔” فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جماعت کے پاس انتخابات لڑنے کا حق ہوتا ہے اور مشترکہ انتخابی نشان اسی کا مظہر ہے۔
نظرثانی اپیلوں پر سماعت 16 جون 2025 کو ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔