کراچی: سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک میں آئینی حکومت موجود نہ ہو اور وہ بطور جج خاموش رہیں، تو یہ ان کے حلف کے منافی ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ "بدقسمتی سے ہمیں تاریخ بھی متضاد پڑھائی جاتی ہے، سچائی کا فقدان ہمارے معاشرتی بگاڑ کی جڑ ہے۔” انہوں نے برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں لکھا ہوا آئین تو نہیں ہے، مگر قانون کی بالادستی ضرور ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ آئین کی بنیاد عوام کی حکمرانی ہے، جو اپنے نمائندے منتخب کر کے ریاستی معاملات چلاتے ہیں، مگر افسوس کہ پاکستان میں یہ خواب آج تک حقیقت نہیں بن سکا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ "کوئی ادارہ پولیٹیکل انجینئرنگ نہیں کرے گا، اور عوامی نمائندے شفاف اور منصفانہ طریقے سے منتخب ہوں گے۔” مگر حقیقت میں ایسا نظام اب تک ہم نافذ نہیں کر سکے۔
خطاب کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ بطور جج اس بات پر خاموش رہیں کہ ملک میں غیر آئینی حکومت قائم ہے یا کوئی ادارہ عوامی مینڈیٹ میں مداخلت کر رہا ہے، تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ کے اس بیان کو عدلیہ میں اصول پسندی کی مضبوط آواز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اور ان کے کلمات نے قانونی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔