اسلام آباد: سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف نے مجوزہ آئینی ترمیم کا پورا ڈرافٹ منظور کرتے ہوئے 49 ترامیم کی شق وار منظوری دے دی۔
اجلاس کی سربراہی فاروق ایچ نائیک اور محمود بشیر ورک نے کی جبکہ سینیٹر طاہر خلیل سندھو، سینیٹر ہدایت اللہ، سینیٹر شہادت اعوان، سینیٹر ضمیر حسین گھمرو، علی حیدر گیلانی، سائرہ افضل تارڑ، بلال اظہر کیانی، سید نوید قمر اور ابرار شاہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ سیکرٹری وزارت قانون و انصاف راجہ نعیم اکبر اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ پی ٹی آئی، جے یو آئی، پی کے میپ اور ایم ڈبلیو ایم کے اراکین شریک نہیں ہوئے۔ کمیٹی اراکین نے اپوزیشن کے اس رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اپوزیشن کو اس اہم اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔
ذرائع کے مطابق مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے آئینی ترمیم کا پورا ڈرافٹ منظور کر لیا اور شق وار 49 ترامیم کی منظوری دے دی۔ کابینہ سے منظور شدہ 27 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کل ایوان میں پیش کیا جائے گا، جبکہ اتحادی جماعتوں کی مجوزہ ترامیم پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔
27ویں آئینی ترمیم: جے یو آئی (ف) کا مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس سے واک آؤٹ
ذرائع کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی نے 27 ویں آئینی ترمیم پر اعتراض کیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے نام کی تبدیلی کی اے این پی تجویز پر حکومت نے مزید وقت مانگ لیا، جبکہ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کی ترمیم پر بھی مزید غور کی درخواست دی گئی ہے۔
مشاورت کے بعد آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت ترامیم کی منظوری دی گئی، جس میں آئینی عدالتوں کے قیام کی شق بھی شامل ہے۔ زیرالتوا مقدمات کے فیصلے کی مدت 6 ماہ سے بڑھا کر ایک سال کر دی گئی، اور ایک سال تک مقدمے کی پیروی نہ ہونے پر اسے نمٹا ہوا تصور کیا جائے گا۔
