بلوچستان کے ضلع سبی میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ریل کی پٹڑی پر ہونے والے دھماکے میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ پنجاب سے آنے والی جعفر ایکسپریس چند لمحے قبل ہی گزر چکی تھی، یوں ممکنہ بڑے سانحے سے بچا جا سکا۔
واقعے کے فوری بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے جبکہ ٹریک اور اس کے اطراف کا تفصیلی معائنہ جاری ہے۔
پولیس حکام کے مطابق جائے وقوعہ سے شواہد اکھٹے کیے جا رہے ہیں تاکہ دھماکے میں استعمال ہونے والے مواد اور ہدف کا تعین کیا جا سکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ واضح نہیں کہ دھماکا کسی مقررہ ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا یا ریموٹ کنٹرول سے۔
یہ واقعہ پیر کے روز جعفر ایکسپریس پر ہونے والی دہشتگردی کی کوشش کے بعد پیش آیا ہے، جب کوئٹہ سے پشاور جانے والی اسی ٹرین کے پائلٹ انجن کو کولپور کے قریب فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انجن کو پانچ گولیاں لگیں تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس واقعے کی ذمہ داری بھارت کی حمایت یافتہ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی، جسے سیکیورٹی ادارے "فتنۃ الہندوستان” قرار دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ جعفر ایکسپریس ماضی میں بھی متعدد بار دہشتگردی کا نشانہ بن چکی ہے۔ مارچ 2025 میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی اسی ٹرین پر حملے میں 26 افراد شہید ہوئے تھے، جن میں اکثریت سیکیورٹی اہلکاروں کی تھی۔ اسی طرح جون 2025 میں سندھ کے ضلع جیکب آباد میں دھماکے سے جعفر ایکسپریس کی چار بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں، تاہم تمام مسافر محفوظ رہے تھے۔
یاد رہے کہ جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنانے کی یہ منظم کوششیں نہ صرف ٹرین کے مسافروں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ پاکستان کی ریلوے تنصیبات اور ملکی سالمیت کے خلاف ایک گہری سازش کا بھی ثبوت ہیں، جس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔