سندھ میں کم از کم اجرت 42 ہزار کی تجویز پر صنعتکاروں کا تحفظات کا اظہار

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

سندھ حکومت کی جانب سے کم از کم ماہانہ اجرت 42 ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز پر صنعتی حلقوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جنید نقی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سندھ کی معیشت، روزگار کی فراہمی اور صنعتی ترقی پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

ان کے مطابق جب ملک میں مہنگائی کی شرح 6 فیصد سے زیادہ نہیں، تو اجرت میں اتنا غیر معمولی اضافہ ناقابلِ فہم ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر سندھ نے یہ حد مقرر کی تو یہ ملک بھر میں سب سے زیادہ کم از کم اجرت ہوگی، جس کے نتیجے میں سرمایہ کار دیگر صوبوں کا رخ کر سکتے ہیں، جہاں اجرتیں کم اور کاروباری لاگت نسبتاً بہتر ہے۔

latest urdu news

جنید نقی نے کہا کہ فی الوقت 37 ہزار روپے کی کم از کم اجرت کے باوجود ایک مزدور پر ماہانہ مجموعی لاگت 61 ہزار روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس میں سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی، بونس، گریجویٹی، اوور ٹائم اور دیگر مراعات شامل ہیں۔ اگر اوور ٹائم کی مقدار بڑھ جائے تو یہ لاگت 69 ہزار روپے سے بھی اوپر جا سکتی ہے، جو سندھ میں صنعتوں کو کاروباری لحاظ سے غیر مسابقتی بنا دیتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ کم از کم اجرت سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کی صورتحال خراب ہے۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق سندھ میں 80 فیصد صنعتیں ان قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں، جبکہ بیشتر مزدور غیر رسمی شعبے میں کام کرتے ہیں، جہاں انہیں نہ تو مکمل تنخواہ ملتی ہے اور نہ دیگر مراعات۔

جنید نقی نے کہا کہ جن اداروں میں قانونی طور پر مکمل اجرت دی جاتی ہے، وہ نقصان میں جا رہے ہیں، جبکہ غیر رسمی ادارے کم تنخواہ دے کر فائدے میں ہیں۔ اس سے مزدوروں میں احساسِ محرومی جنم لے رہا ہے، جو سماجی بے چینی کا باعث بن سکتا ہے۔

کاٹی کے صدر کا کہنا تھا کہ مزدور یونینز کے کمزور ہونے کی وجہ سے 90 فیصد محنت کش اب بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ جب تک لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا، اجرت میں اضافے کا فیصلہ محض کاغذی کارروائی ہی رہے گا، جس سے اصل فائدہ ان اداروں کو پہنچے گا جو پہلے ہی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ سندھ میں لیبر لاگت میں مسلسل اضافے کے باعث صنعتوں کے دیگر صوبوں میں منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف سندھ کی معیشت کمزور ہو گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی محدود ہو جائیں گے، اور صوبے کے مالی وسائل پر دباؤ بڑھے گا۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter