اسلام آباد ہائی کورٹ نے کم عمری میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتے ہوئے ایک اہم قانونی و شرعی نکتہ اٹھایا ہے۔ عدالت کے مطابق شریعت کے مطابق بالغ اور رضا مند لڑکی کا نکاح درست تصور ہوتا ہے، اگرچہ قانون کے تحت کم عمری کی شادی جرم ہے۔
یہ فیصلہ جسٹس محمد اعظم خان نے ایک تفصیلی عدالتی فیصلے میں جاری کیا جس میں مدیحہ بی بی نامی لڑکی نے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ لڑکی نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ اپنے والدین کے پاس واپس جانا نہیں چاہتی اور شادی اپنی مرضی سے کی ہے۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مدیحہ بی بی کرائسز سینٹر میں قیام کے دوران بھی مسلسل اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی خواہاں رہی۔ عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نکاح نامے میں لڑکی کی عمر 18 سال ظاہر کی گئی ہے، لیکن نادرا کے ریکارڈ کے مطابق اس کی اصل عمر 15 سال ہے۔
فیصلے میں حکومت کو سفارش کی گئی ہے کہ نادرا کے نظام کو اس قدر مربوط بنایا جائے کہ کسی بھی نکاح کی رجسٹریشن سے قبل عمر کی تصدیق لازمی ہو۔ مزید یہ کہ نکاح رجسٹرارز کو قانونی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ 18 سال سے کم عمر افراد کی شادی نہ کرائیں۔
اسلام آباد چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2025 کے تحت اگرچہ 18 سال سے کم عمر کی شادی کو جرم قرار دیا گیا ہے، تاہم عدالت نے واضح کیا کہ شریعت میں بلوغت اور رضامندی کے بعد نکاح کو کالعدم نہیں سمجھا جاتا۔