مشیر نجکاری محمد علی نے کہا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کامیابی کے ساتھ مکمل ہو چکی ہے، جس سے نہ صرف ادارے کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ ملک میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا اصل کام کاروبار چلانا نہیں بلکہ مؤثر پالیسی سازی ہے، اور پی آئی اے کی نجکاری اسی اصول کی عکاسی کرتی ہے۔
محمد علی نے بتایا کہ نجکاری کے عمل میں وزیراعظم کی براہِ راست رہنمائی رہی، جبکہ فیلڈ مارشل سمیت دیگر اعلیٰ حکام کی کوششوں سے چھ ماہ کے اندر بولی کا مرحلہ مکمل کیا گیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ماضی میں پی آئی اے کے حوالے سے کئی غلطیاں ہوئیں، جن کا خمیازہ قوم نے بھگتا۔
پی ٹی آئی کے غیر قانونی مطالبات پر مذاکرات ممکن نہیں، وزیر اعظم
انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت تھا جب پی آئی اے کے 50 جہاز آپریشنل تھے، لیکن اب 30 میں سے صرف 18 جہاز فعال ہیں جن میں سے 12 لیز پر ہیں، اور 7 طیارے 12 سے 15 سال پرانے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں پی آئی اے 30 فیصد مارکیٹ شیئر کے ساتھ 30 لوکیشنز پر سروس فراہم کر رہا ہے، اور سالانہ تقریباً 40 لاکھ مسافر اس کی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں۔
محمد علی کے مطابق پی آئی اے کے لینڈ روٹس ادارے کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں اور نجکاری کے ذریعے ادارے کی عظمت آہستہ آہستہ بحال ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کے بیڑے میں فی الحال 100 جہاز ہونے چاہیے تھے، لیکن نجکاری کے بعد ادارہ اپنے اہداف کی جانب پیش رفت کر رہا ہے۔
مشیر نجکاری نے خبردار کیا کہ پی آئی اے کے خلاف جان بوجھ کر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر غلط تاثر پھیلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل دراصل 1999 میں شروع ہوا تھا، مگر 2009 کے بعد ادارے کی کارکردگی میں نمایاں کمی آئی، اور 2015 سے 2024 کے دوران اسے 500 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا جو عوامی پیسوں سے پورا کیا گیا۔
محمد علی نے کہا کہ دنیا بھر میں 2000 کے بعد ایوی ایشن ٹیکنالوجی میں جدت آئی، مگر پی آئی اے بروقت ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی جانب منتقل نہ ہو سکا۔ اگر نجکاری نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ دو سال بعد پی آئی اے پرواز کے قابل ہی نہ رہتی۔ انہوں نے بتایا کہ نجکاری کے ابتدائی مرحلے میں 8 پارٹیوں نے دلچسپی ظاہر کی، اور مستقبل میں پی آئی اے کے جہازوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ ادارے کی ساکھ بحال اور پرانی عظمت واپس لائی جا سکے۔
