دفاعی صلاحیت یا محدودیت؟ پاکستان کا دفاعی نظام موجودہ کشیدگی میں کتنا مؤثر ہے؟

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد: پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران پاکستان کے فضائی دفاعی نظام کی صلاحیتیں اور اس کی مؤثریت پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس کئی جدید دفاعی نظام موجود ہیں، لیکن بعض پہلوؤں میں اب بھی چیلنجز برقرار ہیں۔

latest urdu news

بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق، سابق وائس ایئر مارشل اکرام اللہ بھٹی نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل، کروز میزائل اور جنگی طیاروں کو روکنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے خاص طور پر چین سے حاصل کردہ HQ-16FE دفاعی نظام کو ایک مضبوط اثاثہ قرار دیا، جو درمیانے فاصلے تک فضائی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تاہم، انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ فضا سے زمین پر داغے گئے کروز یا بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے لیے پاکستان کے پاس مؤثر اور مکمل دفاعی ڈھانچہ موجود نہیں، کیونکہ ان ہتھیاروں کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے اور ردعمل کا وقت انتہائی محدود ہوتا ہے۔

سابق ایئر کموڈور عادل سلطان کے مطابق، "دنیا کا کوئی بھی فضائی دفاعی نظام 100 فیصد مؤثر نہیں ہوتا، خاص طور پر ایسے ممالک کے لیے جن کی سرحدیں قریبی ہوں، جیسے پاکستان اور بھارت۔” ان کا کہنا تھا کہ بالاکوٹ واقعے کے بعد پاکستان نے اپنے دفاعی نظام میں نمایاں بہتری کی ہے، لیکن محدود وسائل اور تیزرفتار حملوں کے خلاف تحفظ ابھی بھی ایک چیلنج ہے۔

حال ہی میں، بھارتی فورسز کی جانب سے SCALP کروز میزائلوں کے استعمال کی اطلاعات سامنے آئیں، جنہیں پاکستانی دفاعی نظام HQ-9 اور HQ-16 مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہا۔ ماہرین کے مطابق ان میزائلوں کی اسٹیلتھ خصوصیات اور کم پرواز کی صلاحیت نے ان کا سراغ لگانا مشکل بنا دیا۔

دوسری جانب، پاکستان نے چینی ساختہ PL-15E ایئر ٹو ایئر میزائلوں کا کامیاب استعمال کیا، جن کے ذریعے بھارتی فضائیہ کے کم از کم دو جنگی طیارے تباہ کیے گئے۔ یہ میزائل جدید JF-17 بلاک III اور J-10CE لڑاکا طیاروں پر نصب کیے گئے تھے، جو طویل فاصلے سے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں خطے میں کشیدگی کسی بھی وقت شدت اختیار کر سکتی ہے۔ غلط فہمی یا کسی محدود نوعیت کے تصادم کے امکانات کو روکنے کے لیے دونوں ممالک کے لیے سفارتی ذرائع سے رابطہ برقرار رکھنا اور تحمل کا مظاہرہ کرنا نہایت ضروری ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter