سینئر صحافی حامد میر نے جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران اپنی ٹیم کے ساتھ پیش آنے والے غیر معمولی تجربات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ انتظامیہ کی توجہ سیلاب متاثرین کی مدد کے بجائے سوشل میڈیا پر اپنی تشہیر پر مرکوز نظر آئی۔ ان کے مطابق، کئی مقامات پر ضلعی انتظامیہ اور سیکیورٹی ادارے نہ صرف ان کا تعاقب کرتے رہے بلکہ ان کے ہر قدم کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کی ایک فوج بھی تیار کھڑی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ملتان سے روانگی کے وقت ہی ایک مشکوک گاڑی ان کا پیچھا کرنے لگی جو بعد میں پتہ چلا کہ انتظامیہ کی طرف سے تعینات ایک سرکاری ملازم تھا جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھے اور متعلقہ حکام کو بروقت اطلاع دے۔ جب وہ سیلاب زدہ دیہاتوں میں پہنچے تو اچانک ڈی سی، ایس پی اور دیگر افسران بمعہ سوشل میڈیا ٹیموں کے وہاں پہنچ گئے، جو واضح طور پر "ریہرسل” کے بغیر کیمرہ کے سامنے متحرک ہونے کی تیاری میں تھے۔
حامد میر کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ عوام کی حالت زار اجاگر کرنے کے بجائے، افسران اور عوامی نمائندے ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے میں مصروف نظر آئے۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ بعض افسران مخصوص انداز میں چلتے اور بولتے ہوئے ویڈیوز ریکارڈ کرا رہے تھے، جبکہ کئی مقامات پر ان کے پیچھے کیمروں کی ایک قطار موجود ہوتی تھی۔ انہوں نے ایک خاتون اے ایس پی کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ وہ بار بار ایک مخصوص اسٹائل میں چلتی رہیں تاکہ ٹک ٹاک ویڈیو "پرفیکٹ” بن سکے۔
وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی، آصف زرداری کی فیض حمید کو دوٹوک وارننگ، حامد میر کا انکشاف
انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا ذکر بھی کیا، جو کیمروں کے سامنے سیلاب متاثرین میں نوٹ بانٹ رہے تھے، اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا واقعہ بھی بیان کیا جہاں وہ ایک چھوٹی بچی سے اپنا نام پوچھ کر خوش ہو رہی تھیں، اور اس لمحے کی ویڈیو باقاعدہ میڈیا پر جاری کی گئی۔ حامد میر کے مطابق، اگر عوامی نمائندے کیمرے کے لیے کام کریں گے تو اصل ریلیف کہاں سے آئے گا؟
حامد میر نے اپنی تحریر میں واضح کیا کہ حکومتیں اگر یہ سمجھتی ہیں کہ وہ صرف ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور یوٹیوب پر ویڈیوز بنا کر عوام کو مطمئن کر سکتی ہیں، تو یہ ان کی بڑی غلط فہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل بیانیہ وہی ہوتا ہے جو سچائی پر مبنی ہو، اور سوشل میڈیا پر عوامی آواز کو دبانا کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک اور بحران کو دعوت دینا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر موجودہ حکومتی رویہ نہ بدلا گیا اور صرف دکھاوے کی کارکردگی پر زور رہا تو پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے جہاں عوام نے بالآخر سچ کی تلاش میں موجودہ نظام کو مسترد کر دیا، جیسے کچھ سال پہلے بنگلہ دیش اور حال ہی میں نیپال میں ہوا۔ ان کے بقول، آج کی حکومتوں کا مقابلہ اصل میں عوام سے ہے، اور عوام کو خریدے ہوئے ٹک ٹاکرز سے شکست نہیں دی جا سکتی۔