اسلام آباد میں سینیٹ کی پاور کمیٹی کا اجلاس سینیٹر محسن عزیز کی صدارت میں ہوا، جس میں خیبر پختونخوا کے مدیان اور گبرال ہائیڈرو پاور منصوبوں پر بحث کی گئی۔
اجلاس میں معاون خصوصی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بتایا کہ ان منصوبوں کے لیے 5 ارب روپے کی زمین کی خریداری مکمل ہو چکی ہے اور منصوبوں کی فزیکل و فنانشل پیش رفت بھی ہو چکی ہے، مگر وفاقی حکومت نے ان منصوبوں کو لسٹ سے نکال دیا ہے۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے اس موقع پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کے حکام نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی منظور شدہ پاور پالیسی کو غلط طریقے سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پالیسی کی صرف ایک شق کو سامنے لا کر معاملہ بیان کرنا درست نہیں، بلکہ پورے دستاویز کو سمجھنا ضروری ہے۔
لغاری نے مزید کہا کہ اگر ان دو منصوبوں سے بجلی خریدی گئی تو قیمت مہنگی ہو جائے گی کیونکہ یہ منصوبے سرمایہ کاری پر نہیں بلکہ ورلڈ بینک کے قرضے پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 5 آئی پی پیز کو ختم کر کے صارفین کو فائدہ پہنچایا ہے اور 3400 ارب روپے کی بچت کی ہے۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ ملک میں مسابقتی بجلی مارکیٹ کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے اور حکومت کو بجلی خریدنے سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے صنعتوں کے بجلی ٹیرف میں جون 2024 سے اب تک 30 سے 35 فیصد کمی کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سال ڈسکوز کے نقصان میں 191 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔
اويس لغاری نے قبول کیا کہ ملک میں بجلی چوری کا مسئلہ موجود ہے لیکن اس کے خلاف اقدامات بھی جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر سستی بجلی کی ضرورت ہے تو ورلڈ بینک سے قرضہ لے کر خود منصوبے بنائے جائیں۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ خیبر پختونخوا میں چلنے والے پاور منصوبوں کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین جاری تناؤ کو ظاہر کرتا ہے، جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کی پالیسیاں اور دعوے چیلنج کر رہے ہیں۔