وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی عائد کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی سیکشن 11 بی (1) کے تحت کیا گیا، جس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہوگا۔
کابینہ نے وزارت داخلہ کو ضابطے کی کارروائی کے لیے احکامات جاری کر دیے ہیں، جس میں ٹی ایل پی کو فرقہ وارانہ انتہا پسندی، تشدد اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔ یہ پابندی پنجاب حکومت کی جانب سے ایک ہفتہ قبل بھیجے گئے ریفرنس پر مبنی ہے، جہاں صوبائی کابینہ نے ٹی ایل پی کی حالیہ غزہ کی حمایت میں کیے گئے پرتشدد مظاہروں کی بنیاد پر اسے ممنوعہ قرار دینے کی سفارش کی تھی۔
وزارت داخلہ کی جانب سے کابینہ کو پیش کی گئی سمری میں بتایا گیا کہ ٹی ایل پی نفرت انگیز تقاریر، اقلیتوں کے خلاف تشدد، ہجوم کی بنیاد پر فسادات، نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، ہتھیار سازی اور بین الاقوامی تعلقات کو نقصان پہنچانے میں ملوث رہی ہے۔ خاص طور پر، محرم الحرام کے دوران شیخوپورہ اور میانوالی میں اس کے کارکنوں کی طرف سے فرقہ وارانہ تشدد میں 70 افراد زخمی اور 5 جاں بحق ہوئے۔
ٹی ایل پی کے پرتشدد مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن، 954 افراد گرفتار
پنجاب پولیس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، 2016 سے 2025 تک ٹی ایل پی کے مظاہروں کے دوران مجموعی طور پر 1,648 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے 50 سے زائد کو عمر بھر کی معذوری کا سامنا کرنا پڑا۔ حالیہ مظاہروں میں 6 افراد زخمی، ایک پولیس اہلکار شہید اور 47 دیگر پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے، جبکہ 97 پولیس گاڑیاں تباہ اور 2 کو مکمل طور پر جلا دیا گیا۔ اس کے علاوہ، مظاہروں میں 2,716 کارکن گرفتار کیے گئے۔
یہ دوسری بار ہے جب ٹی ایل پی پر پابندی عائد کی جا رہی ہے؛ پہلے 2021 میں بھی وفاقی کابینہ نے پنجاب کی سفارش پر اسے ممنوعہ قرار دیا تھا، جو بعد میں ایک معاہدے کے تحت ختم ہو گئی۔ اطلاعات وزیر پنجاب اعظم بخاری نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مذہب کے نام پر تشدد برداشت نہیں کیا جائے گا، اور ٹی ایل پی کی قیادت کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کی فورٹ سکیلڈول میں شامل کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ اس فیصلے سے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔