جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ محض ایک سال میں دوسری آئینی ترمیم لانا آئین کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے، اور اس طرح کے اقدامات عوام کے اعتماد کو مجروح کر سکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ “کسی کو بھی آئین سے کھلواڑ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آئینی ترامیم جبر یا جلدبازی سے منظور کی گئیں تو پھر عوام آئین پر بھروسہ کیسے کریں گے؟”
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں اپوزیشن نے حکومت کو 34 شقوں سے دستبردار کروایا تھا، تاہم اب 27ویں آئینی ترمیم کے نام پر دوبارہ وہی نکات شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے مطابق اپوزیشن کو ابھی تک ترمیم کا مسودہ نہیں ملا، اور اس حوالے سے تمام جماعتیں مشترکہ موقف اختیار کریں گی۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے مزید کہا کہ ایک وفاقی وزیر پچھلے تین ماہ سے اس ترمیم پر کام کر رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ “یہ ترمیم کہیں اور سے تیار کی گئی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کل تک 26ویں ترمیم پر تحفظات ظاہر کر رہے تھے، مگر اب 27ویں ترمیم بھی لے کر آگئے ہیں، جو خود ایک تضاد ہے۔
27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا معاملہ: وزیراعظم نے اسپیکر ایاز صادق کو اہم ٹاسک سونپ دیا
قبل ازیں، پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کہ سینیٹر فیصل واوڈا سے ملاقات معمول کی تھی اور وہ کسی خاص پیغام کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ “جب تک 27ویں ترمیم کا مسودہ سامنے نہیں آتا، اس پر بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ہوا میں باتیں نہیں اڑانی چاہئیں۔”
مولانا نے طنزیہ انداز میں کہا کہ “سنا ہے بلاول بھٹو زرداری نے کوئی پرچہ آؤٹ کیا ہے، مگر یہ ابھی معلوم نہیں کہ وہ صحیح پرچہ آؤٹ ہوا ہے یا نہیں۔”
