جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا حل صرف فلسطینی عوام کی مرضی اور شرکت سے ممکن ہے، اور حماس کو نظرانداز کر کے کوئی بھی حل مسلط نہیں کیا جا سکتا کیونکہ "حماس اصل فریق ہے”۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان نے کبھی تسلیم نہیں کیا اور نہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو فلسطین کے نام پر درحقیقت اسرائیل کی توسیع کا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ دو ریاستی حل کو فلسطینیوں پر تھونپا نہیں جا سکتا۔ اگر فلسطینی خود کسی حل پر متفق ہوں، تو بات کی جا سکتی ہے، لیکن بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے ان پر زبردستی کوئی حل مسلط کرنا ناقابل قبول ہے۔
فضل الرحمان نے امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی پالیسیوں پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ نوبل انعام امن کے لیے نہیں بلکہ ٹرمپ کو "جنگ کا انعام” دینا چاہیے، کیونکہ فلسطین میں لاکھوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ فلسطینیوں کی زمینیں فروخت ہونے کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے، اور اسرائیل کے قیام کے لیے تاریخی سفارشات کو روند کر قبضہ کیا گیا۔
پاکستان اور 7 مسلم و عرب ممالک نے ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو خوش آمدید کہا
مولانا نے پاکستان کی موجودہ حکومت اور سیاسی قیادت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسئلہ فلسطین پر کمزور مؤقف اپنا رہی ہے، اور فلسطینیوں کی حمایت کے اصل جذبے کا فقدان نظر آ رہا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچے بھی نہیں، کیونکہ یہ بانی پاکستان کے مؤقف سے انحراف ہوگا۔ ان کے مطابق فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے کے بغیر کوئی حل قابل قبول نہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اگر کوئی حل ہوگا، تو مذاکرات کی میز پر فلسطینی قیادت کی موجودگی میں ہی ممکن ہے، ورنہ یہ تمام کوششیں صرف اسرائیلی توسیع پسندی کو تحفظ دینے کے مترادف ہوں گی۔