مولانا فضل الرحمن نے اے این پی کی اے پی سی سے خطاب میں کہا کہ ملک کا سیاسی و پارلیمانی نظام سوالیہ نشان ہے، قبائل غیر محفوظ اور حکومت نمائندہ عوام نہیں۔
اسلام آباد،جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک کا سیاسی اور پارلیمانی نظام مسلسل سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے موجودہ حکومت عوام کی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی مجالس کا انعقاد خوش آئند ہے، تاہم ریاست کی پہلی ترجیح انسانی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں عام آدمی دن اور رات غیر محفوظ ہے، قبائلی علاقے اب بھی مسلح گروہوں کی گرفت میں ہیں، کاروباری طبقے کو بھتے دینے پڑتے ہیں اور سرکاری فنڈز کا دس فیصد انہی گروہوں کو چلا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معدنی وسائل عوام کی ملکیت ہیں لیکن یہاں قوانین اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ اتھارٹی قائم کی جا سکے، جبکہ دنیا میں سرمایہ کاری اور مقامی عوام کی شراکت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے فاٹا انضمام پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ آٹھ نو سال بعد ریاست دوبارہ جرگہ سسٹم بحال کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے حالانکہ امن کی ذمہ داری حکومت پر منتقل ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر مل رہا ہے کہ انضمام صرف علاقوں تک رسائی کے لیے کیا گیا اور اب امن و امان کی ذمہ داری قبائل پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ یہ فیصلہ تاریخ کرے گی کہ کس کا مؤقف درست تھا۔
انہوں نے کہا کہ کہاں ہیں وہ 100 ارب روپے جو فاٹا کے انضمام کے بعد ملنے تھے اور کہاں گئے وہ خواب جو عوام کو دکھائے گئے تھے؟ ان کا کہنا تھا کہ مائن اور منرل ایکٹ سمیت ایسی قانون سازی کی جا رہی ہے جو آئین اور اٹھارویں ترمیم کے منافی ہے، صوبوں کے اختیارات چھینے جا رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اختلاف رائے کو بغاوت نہ سمجھا جائے، ہم پر امن مارچ کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جو عوامی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نظام کو درست اور شفاف بنایا جائے ورنہ یہی رویے بغاوت کو جنم دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے مؤقف پر آج بھی قائم ہیں اور عوامی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔
یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمن ماضی میں بھی کئی مواقع پر پارلیمانی اور حکومتی ڈھانچے کو اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے آزاد کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور حالیہ اے پی سی میں بھی انہوں نے اسی موقف کو دہرا کر سیاسی جماعتوں کو متفقہ ایجنڈے پر اکٹھا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔