سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں کم معیاد ادویات کی خریداری، قواعد کی سنگین خلاف ورزیاں بے نقاب

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

سرکاری اسپتالوں میں کم معیاد اور سستی ادویات کی خریداری کا انکشاف، قواعد کی خلاف ورزی، ڈریپ ایکٹ کے تحت سخت سزائیں ممکن

کراچی سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کم معیاد، یعنی جلد ایکسپائر ہونے والی ادویات کی خریداری مسلسل جاری ہے۔ ان دواؤں کو ان کی کم قیمت کی وجہ سے ترجیح دی جاتی ہے، حالانکہ صحت کے عالمی معیارات کے مطابق ایسی ادویات مریضوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔

latest urdu news

ماہرین کے مطابق، کم ایکسپائری والی دوا کی قیمت مارکیٹ میں عام ادویات کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہے۔ اسی بنا پر کئی اسپتال جان بوجھ کر کم معیاد والی دوائیں خرید کر بجٹ بچاتے ہیں، جس سے مریضوں کی صحت پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔

یہ عمل مرکزی پروکیورمنٹ کمیٹی کی نگرانی میں ہوتا ہے، جس کا مقصد ادویات کی منصفانہ خریداری تھا، مگر اب یہ عمل متنازع ہوتا جا رہا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں خریدی جانے والی ادویات اکثر غیر معروف کمپنیوں کی ہوتی ہیں، جن کی میعاد صرف چند ماہ باقی رہتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر، ان ادویات کو "فارمولیشن” کے نام پر خریدا جاتا ہے، جبکہ مارکیٹ میں وہی دوا کسی اور نام سے مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔

پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (DRAP) کے مطابق، کسی بھی دوا کی کم از کم ایکسپائری چھ ماہ ہونی چاہیے، لیکن اس پالیسی کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ DRAP ایکٹ 2012 اور ڈرگ ایکٹ 1976 کے مطابق، ایکسپائرڈ دوا کی خرید و فروخت جرم ہے، جس پر پانچ سال قید، بھاری جرمانہ اور لائسنس منسوخی کی سزا ہو سکتی ہے۔ ڈریپ سندھ کے سربراہ ڈاکٹر عبید علی کے مطابق، کم معیاد ادویات کی قیمتیں واقعی کم ہوتی ہیں، اسی لیے اسپتال ان کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، تاہم وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایسی دوا کی افادیت وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔

ڈیرہ غازی خان: 1 ارب 70 کروڑ روپے کی چوری شدہ سرکاری ادویات برآمد

حیرت انگیز طور پر، آج تک پاکستان میں کوئی باقاعدہ قومی فارماکوپیا (Pharmacopoeia) موجود نہیں، جو ادویات کے معیار و معیاد کا ایک واضح نظام قائم کر سکے۔ ملک میں رجسٹرڈ 900 ادویات میں سے 400 کو جان بچانے والی ادویات قرار دیا گیا ہے، جبکہ باقی کو غیر ضروری (Non-Essential) فارمولیشن میں شامل کیا گیا ہے۔

سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے حالیہ اجلاس میں ادویات کی خریداری پر سوالات اٹھائے اور اس میکانزم کو شفاف بنانے کا مطالبہ کیا۔ اجلاس میں سیکریٹری صحت نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ پروکیورمنٹ کا نظام بہتر بنانے پر کام جاری ہے، مگر زمینی حقائق اب بھی تشویشناک ہیں۔

یاد رہے کہ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی خریداری ہمیشہ سے الزامات کی زد میں رہی ہے، اور کم معیاد ادویات کی مسلسل خریداری مریضوں کی صحت کو سنگین خطرے سے دوچار کر رہی ہے۔ اگر ادارہ جاتی نگرانی اور شفافیت کو یقینی نہ بنایا گیا تو یہ مسئلہ ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter