ماہر ماحولیات ڈاکٹر زینب نعیم نے کہا ہے کہ ملک میں شدید بارشوں کی پیشگوئی موجود تھی مگر ہم سائنس کو سنجیدہ نہیں لیتے۔
خیبرپختونخوا میں کلاؤڈ برسٹ کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں اور درجہ حرارت میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ڈاکٹر زینب نے کہا کہ پانی کے ذخائر خشک ہو رہے ہیں اور ہمیں خشک سالی یا شدید سیلاب، دونوں انتہاؤں کا سامنا ہے، مگر اس کے لیے کوئی مناسب انتظامات موجود نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ غلط اندازے اور بروقت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے تباہی ہوتی ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
خیبرپختونخوا میں حالیہ کلاؤڈ برسٹ نے قیامت صغریٰ کا منظر پیش کیا ہے جہاں 350 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، سیکڑوں زخمی ہیں اور درجنوں لاپتا ہیں۔ بونیر میں یہ قدرتی آفت تاریخ کی سب سے بڑی تباہی قرار دی جا رہی ہے، جہاں آبی ریلے درجنوں گھر اور مکینوں کو بہا لے گئے، کھیت کھلیان تباہ ہو گئے اور مال مویشی بھی ضائع ہو گئے۔
سوات میں بھی شدید بارشوں سے کئی گھر متاثر ہوئے اور لوگ بلند مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ امدادی کارروائیوں میں بارشوں کی مسلسل شدت اور دیگر مشکلات نے رکاوٹیں پیدا کی ہیں اور اب تک ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
بونیر اور سوات میں سیلابی ریلے، 80 افراد جاں بحق، ایمرجنسی نافذ
کلاؤڈ برسٹ کے بعد انتظامی نااہلی کے پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ متاثرین صبح سے بھوکے پیاسے حکومتی امداد کے منتظر ہیں اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بونیر کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں صبح سے ڈاکٹر نہیں تھے اور دوپہر میں آ کر اسپتال کا جنریٹر بھی بند تھا، جس سے زخمیوں کو سہولیات فراہم کرنا مشکل ہو گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو اس قسم کے حادثات بڑھتے جائیں گے۔
ڈاکٹر زینب نعیم نے زور دیا کہ سائنس کو سنجیدگی سے لیا جائے، موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہتر منصوبہ بندی کی جائے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے عملی حکمت عملی تیار کی جائے۔