سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی ٹرائل کا فیصلہ چیلنج کر دیا گیا

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد: سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی اجازت دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کر دی ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں وفاق اور چاروں صوبوں کو فریق بنایا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ عدالت نے اپنی آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا اور بنیادی حقوق سے متصادم فیصلہ صادر کیا۔

latest urdu news

درخواست میں جواد ایس خواجہ نے واضح کیا کہ پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی دفعات 2(1)(d) اور 59(4) کو کالعدم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات میں ملوث سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔

تاہم 7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ دیتے ہوئے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور حکومت کی اپیلیں دو کے مقابلے میں پانچ ججوں کی اکثریت سے منظور کر لیں۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے جن مقدمات پر انحصار کیا، ان کی تشریح اور اطلاق غلط انداز میں کیا گیا۔ ایف بی علی کیس، ڈسٹرکٹ بار کیس، اور شاہدہ ظہیر عباسی کیس کو بنیاد بنا کر جو فیصلہ دیا گیا، وہ آئینی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔

جواد ایس خواجہ نے اس پر بھی اعتراض اٹھایا کہ آئینی بینچ نے ایک طرف فوجی عدالتوں میں فیئر ٹرائل کا حق تسلیم کیا، مگر ساتھ ہی پارلیمان کو اپیل کے حق کے لیے قانون سازی کا حکم دیا، جو فیصلے کے اندرونی تضاد کی نشاندہی کرتا ہے۔

نظرثانی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ملٹری ٹرائل مکمل طور پر آئینی اور آزاد ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پورا سول عدالتی نظام ایگزیکٹو کے ماتحت کیوں نہ کر دیا جائے۔

جواد ایس خواجہ نے استدعا کی کہ 7 مئی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ بحال کیا جائے۔

یاد رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو آئینی قرار دیا تھا اور حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کر کے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کر دیا تھا۔ اس فیصلے سے اختلاف جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم الدین افغان نے کیا تھا، جبکہ باقی پانچ ججوں نے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter