پہلگام میں پیش آنے والے دہشتگرد حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ایک جانب پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارتی حملے کا امکان ظاہر کیا، تو دوسری طرف چین کا کردار اس صورتحال میں اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ چین اس بحران میں پاکستان کے لیے کتنا مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے؟ کیا بیجنگ کی مداخلت انڈیا کو ممکنہ عسکری کارروائی سے باز رکھ سکتی ہے؟اور خود چین کا مفاد اس معاملے میں کیا ہے؟
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے حالیہ بیان میں واضح کیا کہ بیجنگ کشمیر کی صورتحال اور اس کے بعد پیدا ہونے والے تناؤ پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے مطابق، یہ بیان پاکستانی وزیر خارجہ و نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی درخواست پر اتوار کو ہونے والی گفتگو کے دوران دیا گیا۔ وانگ یی نے کہا کہ چین دونوں ممالک سے تحمل اور کشیدگی میں کمی کی توقع رکھتا ہے۔
یہ حملہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہوا تھا، جس میں متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ واقعے کے اگلے روز چین نے دہشتگردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر قسم کی دہشتگرد کارروائیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ انڈیا میں تعینات چینی سفیر نے بھی متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
اگرچہ بھارت نے اب تک سرکاری طور پر پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا، تاہم کئی غیر رسمی اقدامات کیے جا چکے ہیں، جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان بھی شامل ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے نہ صرف ان الزامات کو مسترد کیا بلکہ غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کی پیشکش بھی کی۔
ادھر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپیں بھی جاری ہیں، جو صورت حال کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔ ایسے میں چین کا کردار مزید نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے مطابق، وانگ یی نے انسداد دہشتگردی کو تمام اقوام کی مشترکہ ذمہ داری قرار دیا اور کہا کہ چین پاکستان کے سلامتی سے متعلق خدشات کو سمجھتا ہے اور خودمختاری کے دفاع میں پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔
سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کی رائے میں، چین کی شمولیت محض سفارتی حمایت سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہر اینار ٹینگن کے مطابق، پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کو روکنے میں اصل عنصر یہ ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، جس کے باعث کسی بھی قسم کی جنگ کے اثرات خطرناک ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کار پروفیسر شعیب کا خیال ہے کہ چین کا کردار محدود نہیں بلکہ فیصلہ کن ہو سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب انڈیا "ٹو فرنٹ وار” یعنی بیک وقت پاکستان اور چین کے ساتھ تنازع کی بات کرتا ہے۔ ان کے مطابق، انڈیا چین کے ردعمل سے مکمل طور پر بے خبر ہے، اور جنگ کے ماحول میں غیر یقینی صورتحال ایک منفی عنصر ہوتی ہے۔
پروفیسر شعیب نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھی چین کی اہمیت بڑھی ہے، کیونکہ اس معاہدے کے تحت پانی کا بڑا حصہ تبت سے آتا ہے، جو چینی کنٹرول میں ہے۔ اگر انڈیا اس پانی پر سیاست کرے گا تو چین بھی سخت ردعمل دے سکتا ہے۔
انھوں نے خبردار کیا کہ "اگر انڈیا پاکستان کے پانی پر اثر انداز ہوتا ہے تو چین کہہ سکتا ہے کہ آپ کی اپنی پریکٹس ایسی ہے، لہٰذا آپ اپنا مقدمہ خود ہی کمزور کر بیٹھیں گے۔”
موجودہ صورتحال میں چین کی سفارتی کوششیں اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ بیجنگ جنوبی ایشیا میں استحکام کو اہمیت دیتا ہے اور کسی بھی ممکنہ تصادم سے بچنا چاہتا ہے، کیونکہ اس کا براہِ راست اثر خطے کی معیشت، سیکیورٹی اور بین الاقوامی ساکھ پر پڑ سکتا ہے۔