پاکستان کی سابق خاتون وزیراعظم، بینظیر بھٹو کی 18ویں برسی کے موقع پر ملک بھر سے پارٹی کارکنان لاڑکانہ کے گڑھی خدا بخش پہنچ رہے ہیں۔
گڑھی خدا بخش میں تعزیتی تقریبات
بینظیر بھٹو کی برسی پر پیپلز پارٹی کے کارکنان بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ قائم کیے گئے ہیں تاکہ زائرین کو سہولت فراہم کی جا سکے۔
خاتون اول آصفہ بھٹو اور فریال تالپور نے بے نظیر بھٹو کے مزار پر حاضری دی۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی قبروں پر پھول چڑھائے۔ پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما اور جیالے بھی قبروں پر حاضری دینے کے لیے آئے۔
حکومتی اقدامات اور تعطیلات
سندھ حکومت نے اس موقع پر عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر فیصل ممتاز راٹھور نے بھی آزاد کشمیر میں عام تعطیل کی ہدایت دی۔
یہ اقدام عوام کو برسی کی تقریبات میں شریک ہونے کی سہولت دینے کے لیے کیا گیا ہے۔
بینظیر بھٹو کی سوانح حیات
بینظیر بھٹو کو "دخترِ مشرق” کا لقب دیا گیا۔ وہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں اور دو بار پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
ان کے والد کو پھانسی دی گئی، دو بھائی قتل ہوئے اور انہیں جلاوطنی اور بدترین آمریتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود بینظیر بھٹو نے جمہوری جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔
سندھ حکومت کامحترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر 27 دسمبر کو عام تعطیل کا اعلان
تعلیمی پس منظر اور سیاسی سفر
بینظیر بھٹو 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کونوینٹ آف جیزز اینڈ میری کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی۔
بعد ازاں ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور بین الاقوامی قوانین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں اپنے سیاسی جانشین کے طور پر مقرر کیا۔
سیاسی جدوجہد اور عالمی شناخت
ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران بینظیر بھٹو بیرون ملک رہ کر جمہوریت کے لیے سرگرم رہیں۔ 1988 میں پہلی بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں، مگر 18 ماہ بعد حکومت ختم کردی گئی۔
نومبر 1993 میں دوسری بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالی، مگر 1996 میں حکومت کا خاتمہ ہوا۔ 2007 میں ملک واپسی کے دوران بم دھماکوں اور جان کے خطرات کے باوجود عوامی جلسے کیے۔
انتہائی المناک اختتام
27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لياقت باغ میں جلسے سے واپسی پر جان لیوا حملے میں وہ شہید ہو گئیں۔ بینظیر بھٹو کو لاڑکانہ کے گڑھی خدا بخش میں والد اور بھائیوں کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی قربانی اور جدوجہد آج بھی پاکستان میں جمہوریت اور عوامی حقوق کی علامت کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔
