قومی کمیشن برائے وقار نسواں نے جہیز و تحائف پر پابندی کے لیے تجاویز طلب کر لیں، قانونی اصلاحات کا عمل جاری۔
اسلام آباد: قومی کمیشن برائے وقار نسواں نے جہیز اور دلہن کے تحائف پر پابندی کے لیے اہم پیشرفت کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے باضابطہ تجاویز طلب کر لی ہیں۔ یہ اقدام خاندانی قوانین پر جاری نظرثانی عمل کے تحت اٹھایا گیا ہے، جس کا مقصد جہیز جیسے سماجی بوجھ کے خاتمے کے لیے مؤثر اور قابلِ عمل قانونی دائرہ کار فراہم کرنا ہے۔
گزشتہ روز کمیشن نے "جہیز اور دلہن کے تحائف (پابندی) ایکٹ 1976” پر دوسرا قومی مشاورتی اجلاس منعقد کیا، جس کی صدارت چیئرپرسن اُمِ لیلیٰ اظہر نے کی۔ اجلاس میں متعلقہ وزارتوں، اداروں اور قانونی ماہرین کے اہم نمائندوں نے شرکت کی، جہاں قانون کی دفعات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور اسے عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے متعدد تجاویز پر غور کیا گیا۔
اجلاس وقار نسواں کمیشن ایکٹ 2012 کے تحت کمیشن کے دائرہ کار اور قومی اسمبلی کی جینڈر مین اسٹریمِنگ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کی ہدایات کے مطابق منعقد کیا گیا۔ شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جہیز اور دلہن کے تحائف کا کلچر نہ صرف خواتین پر معاشی اور سماجی دباؤ بڑھاتا ہے بلکہ کئی خاندانوں کے لیے مستقل ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔
قومی وقار نسواں کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ قانون کو مزید مؤثر، واضح اور قابلِ عمل بنایا جائے گا تاکہ ایسے تمام رویوں اور مطالبات کا سدباب ممکن ہو سکے جو خواتین کے وقار اور مساوی حیثیت کے خلاف ہوں۔ اس سلسلے میں مختلف اداروں، سول سوسائٹی اور قانونی ماہرین سے تحریری تجاویز طلب کی گئی ہیں، جنہیں آئندہ اجلاسوں میں مدنظر رکھا جائے گا۔
یاد رہے کہ جہیز اور دلہن کے تحائف (پابندی) ایکٹ 1976 سے نافذ العمل ہے، مگر عملدرآمد کے فقدان کے باعث یہ قانون موثر ثابت نہیں ہو سکا۔ حالیہ مشاورتی عمل کا مقصد اس قانون کو حقیقتاً نافذ کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ خواتین کو غیر ضروری سماجی بوجھ سے نجات دلائی جا سکے۔