وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اسلام آباد میں ممبر قومی اسمبلی جمال رئیسانی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ڈیرہ بگٹی میں تقریباً 100 دہشتگردوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پیشرفت خوش آئند ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان اور دیگر عسکریت پسند واپس آ کر معافی کا دروازہ اختیار کر سکتے ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ 2018-2019 میں بھی کچھ دہشتگرد پہاڑوں کی طرف چلے گئے تھے، مگر واپس آنے پر انہیں قبول کیا گیا۔ 2010 میں بھی اسی طرح بعض عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالے تھے۔
سکیورٹی صورتحال اور قربانیاں
سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں 900 دہشتگردی کے واقعات ہوئے، جن میں 205 سکیورٹی اہلکار اور 6 افسران شہید ہوئے۔ علاوہ ازیں، 280 سویلین بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشتگرد سویلینز کو نسلی بنیادوں پر پروفائلنگ کر کے قتل کرتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے ہزاروں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے، جن میں 706 دہشتگرد مارے گئے، جن کا تعلق افغانستان سے تھا۔
ریاستی رویہ اور معافی کا دروازہ
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ریاست کا دل کھلا ہے اور جو لوگ ہتھیار ڈال کر واپس آنا چاہیں، انہیں معافی دی جائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ بلوچستان میں کوئی وسیع فوجی آپریشن نہیں ہو رہا بلکہ انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 30 سال سے نوجوان محرومی کا شکار رہے اور انہیں ریاست کے ساتھ جوڑنے کے لیے ڈائیلاگ ضروری ہے۔
ذہنی مفلوج اقتدار کیلئے طالبان اور بھارت کی سپورٹ حاصل کر رہا ہے: عظمیٰ بخاری
فوج اور سیاسی بیانیہ
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ایک منظم فوج اور دلیر سپہ سالار کی موجودگی میں دہشتگرد کچھ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سیاسی بیانیہ بعض اوقات فوج یا ریاست مخالف تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے، جو درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی سالمیت اور عوام کی حفاظت سب سے اہم ہیں۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالات
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صورتحال اپنے علاقائی اور جغرافیائی وجوہات کی بنا پر حساس ہے۔ انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ اپنی فورسز کے ساتھ کھڑے رہیں اور ملک دشمن عناصر کو شکست دینے میں معاون بنیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ صوبائی ترقی کے لیے سیاسی اختلافات اور پروپیگنڈے سے گریز کیا جائے اور وفاق کے تعاون سے معاشرتی و اقتصادی بہتری پر توجہ دی جائے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کا موقف واضح ہے: دہشتگردوں کو روکنے اور عوام کی حفاظت کرنے کے لیے ریاست، فوج اور شہریوں کا مشترکہ کردار ضروری ہے۔ معافی اور ڈائیلاگ کے ذریعے امن قائم کرنا ممکن ہے، جبکہ مضبوط سکیورٹی آپریشنز سے عوام کی جان و مال محفوظ رہتی ہے۔
