قومی اسمبلی اجلاس میں وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے محمود اچکزئی کی تنقید کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ بڑے ہیں، میری تربیت ایسی نہیں کہ انہیں جواب دوں۔
اسلام آباد، قومی اسمبلی کے اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی سخت تنقید پر ردِعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ وہ بڑے ہیں، میری تربیت نہیں کہ میں ان کی باتوں کا جواب دوں۔
اجلاس کے دوران محمود خان اچکزئی نے اسپیکر قومی اسمبلی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب ایک رکن نے آئین کی پاسداری نہیں کی تو آپ ایوان کے کسٹوڈین نہیں رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایوان کے کئی اراکین کو یہاں سے کھینچ کر نکالا گیا، اس پر بحث ہونی چاہیے تھی، اسپیکر کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر واضح مؤقف اختیار کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں نئی سیاست کا آغاز ہونا چاہیے جہاں فیصلے یہ ایوان کرے اور سب کو مل بیٹھ کر بات کرنا ہوگی۔
محمود اچکزئی نے اپنی تقریر میں عمران خان کو ملک کا سب سے مقبول لیڈر قرار دیا اور کہا کہ ایوان میں حقیقی جمہوری رویہ اپنایا جائے۔
ان کے خطاب پر اسپیکر قومی اسمبلی نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر پونے چار سال کے پروڈکشن آرڈر کا ریکارڈ نکال لیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام معاملات پر شفاف گفتگو ضروری ہے۔
محمود خان اچکزئی کا پارلیمنٹ میں دو ٹوک مؤقف،آئیں توبہ کریں، ایک دوسرے کو معاف کریں
بعد ازاں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ محمود اچکزئی نے ان کے بارے میں سخت زبان استعمال کی، مگر انہوں نے شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ "میری تربیت ایسی نہیں کہ میں بڑوں کی بات کا جواب دوں”۔
وزیرِ قانون نے انکشاف کیا کہ 2 مئی کی شام تحریک انصاف سے ملک گیر سطح پر انتخابات پر اتفاق ہو چکا تھا، تاہم عمران خان کی ایک کال کے بعد شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہو سکی۔
اعظم نذیر تارڑ نے اپنی تقریر میں 26ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کو مضبوط بنایا گیا، بار کونسلز کو تسلیم کیا گیا اور آئینی اداروں کو زیادہ فعال بنانے کی کوشش کی گئی۔
یاد رہے کہ موجودہ سیاسی تناؤ اور اپوزیشن کی واپسی کے تناظر میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بیانات میں تلخی اور سخت لب و لہجہ بڑھتا جا رہا ہے، تاہم بعض حکومتی شخصیات ابھی بھی مفاہمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔