اسلام آباد: پاکستان میں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (AMR) یعنی جراثیموں کی اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت تیزی سے ایک مہلک صحت بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو ہر سال ملک میں 10 لاکھ سے زائد اموات کا سبب بن رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان میں سے کم از کم تین لاکھ اموات براہ راست دواؤں کی مزاحمت کے باعث ہوتی ہیں، جبکہ 7 لاکھ افراد اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
یہ چشم کشا انکشاف وزارتِ قومی صحت، ضوابط و ہم آہنگی (NHSR&C) کے زیر اہتمام ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا، جس میں ماہرین نے پاکستان کے دوسرے قومی ایکشن پلان (NEP 2.0) پر فوری عملدرآمد پر زور دیا۔
اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر شبانہ سلیم نے خبردار کیا کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں دستیاب تمام اینٹی بایوٹکس غیر مؤثر ہو سکتی ہیں۔ ان کے مطابق 95 فیصد سے زائد اینٹی بایوٹکس پرائمری کیئر پر استعمال ہو رہی ہیں، اس لیے عام معالجین کی تربیت اور عوامی سطح پر آگاہی انتہائی اہم ہے۔
معروف معالج پروفیسر جاوید اکرم نے اے ایم آر کو پاکستان کے لیے سب سے بڑا صحت کا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو لاحق ہونے والی پیچیدہ انفیکشنز اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہیں۔ ان کے مطابق اکثر مریض کامیاب آپریشن کے بعد بھی مزاحم جراثیموں سے متاثر ہو کر دم توڑ دیتے ہیں، حتیٰ کہ تیماردار بھی متاثر ہو کر ہلاک ہو سکتے ہیں۔
پروفیسر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ یہ خطرناک جراثیم ہسپتالوں میں بے دریغ اینٹی بایوٹک استعمال کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور بعد ازاں گندے پانی اور مکھیوں کے ذریعے معاشرے میں پھیل جاتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کو اے ایم آر کنٹرول کے لیے ماڈل ہسپتال بنایا جائے۔
اس موقع پر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر عاطف حفیظ اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر احسن قوی نے سفارش کی کہ اے ایم آر سے متعلق تعلیم کو میڈیکل کے انڈرگریجویٹ نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ آنے والے معالجین اس مسئلے سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے کو اب بھی نظر انداز کیا گیا تو پاکستان ایک ایسے بحران میں داخل ہو جائے گا جہاں معمولی انفیکشنز بھی جان لیوا بن سکتی ہیں۔