سپریم کورٹ میں 9 مئی کیسز کی سماعت کے دوران جسٹس اشتیاق ابراہیم نے دلچسپ ریمارکس دیے۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کا ماحول اس وقت کچھ غیر رسمی اور دلچسپ ہو گیا جب جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایک جملے سے سب کو چونکا دیا:
"کیا پتا کل میرا یا کسی اور کا نام بھی 9 مئی کیسز میں ڈال دیا جائے!”
یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں پی ٹی آئی کی کارکن صنم جاوید کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جاری تھی۔ حکومت کی طرف سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے صنم جاوید کو بری کیا۔
مگر سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس دلیل کو زیادہ وزن نہیں دیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے دوٹوک انداز میں کہا: "ہائیکورٹ کے پاس اختیار ہوتا ہے، اگر کسی کو ناانصافی کا سامنا ہو رہا ہو تو عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی۔”
پنجاب حکومت کے وکیل نے زور دیا کہ ہائیکورٹ سوموٹو (ازخود نوٹس) اختیارات استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے یاد دلایا کہ: "کریمنل اپیل میں ہائیکورٹ کو سوموٹو اختیار حاصل ہوتا ہے۔”
بحث کے دوران جب بات صنم جاوید کے خلاف کیس کی اہمیت اور تاخیر پر ہوئی تو جسٹس اشتیاق نے ہلکے پھلکے مگر گہرے معنی رکھنے والے الفاظ کہے: "آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ صنم جاوید نے جرم کیا؟”
اسی دوران انہوں نے وہ مشہور جملہ کہا جس سے عدالت کا ماحول کچھ لمحوں کے لیے غیر رسمی ہو گیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے بھی کیس کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا: "جو کچھ اس کیس میں ہے، بہتر یہی ہے کہ ہم کچھ نہ ہی کہیں۔”
سماعت کے اختتام پر عدالت نے کیس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔