پیر، 21 اپریل کو پاکستان میں پولیو کے خلاف ایک اور قومی مہم کا آغاز ہوا۔ یہ صرف ایک ویکسینیشن مہم نہیں، بلکہ لاکھوں بچوں کی صحت، زندگی اور مستقبل کی جنگ ہے، ایک ایسی جنگ جو دہائیوں سے جاری ہے اور جس کا خاتمہ اب بھی دکھائی نہیں دیتا۔
اس ہفتے بھر جاری رہنے والی اس مہم کا مقصد ملک بھر میں 45 ملین بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا ہے۔ یہ وہی قطرے ہیں جو کسی بھی بچے کو زندگی بھر کی معذوری یا موت سے بچا سکتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ صرف ویکسین پلانا ہی کافی نہیں — اصل مسئلہ ان بچوں تک محفوظ انداز میں پہنچنے کا ہے۔
2025 کے صرف پہلے چند مہینوں میں پاکستان میں پولیو کے 6 نئے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ اگرچہ فروری کے بعد کوئی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا، مگر یہ خاموشی کسی بڑے طوفان سے پہلے کی ہو سکتی ہے۔ 2024 میں 74 نئے کیسز کے بعد، اب یہ احساس اور بھی شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم جیتی ہوئی جنگ کو دوبارہ ہارنے کے قریب ہیں۔
وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی دہلیز پر آنے والے پولیو ورکرز کا ساتھ دیں، کیونکہ یہ مہم صرف حکومت کی نہیں، ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہر قطرہ، ہر بچہ، ایک امید ہے کہ شاید یہ ملک ایک دن پولیو سے پاک ہو جائے۔
مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پولیو سے بچاؤ کی یہ کوششیں اکثر خون میں ڈوب جاتی ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں میں 200 سے زائد پولیو ورکرز اور سیکیورٹی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ صرف 2012 کے بعد سے اب تک 150 سے زائد ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں۔ کچھ کو گولیاں لگیں، کچھ کو اغوا کیا گیا — صرف اس لیے کہ وہ بچوں کو محفوظ بنانے نکلے تھے۔
حال ہی میں خیبر پختونخوا میں دو پولیو ورکرز کو اغوا کر لیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو بچوں کے لیے امید بنے ہوئے تھے، مگر خود عدم تحفظ کا شکار ہو گئے۔
یہ کہانی صرف بیماری کی نہیں، ایک ایسے معاشرے کی ہے جو سازشوں، غلط معلومات اور اندھی نفرت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ جہاں کچھ عناصر بچوں کی زندگیوں کو بھی "مذہبی جنگ” کا میدان سمجھتے ہیں۔
آج اگر ہم اپنے بچوں کو پولیو جیسے خطرناک مرض سے نہیں بچا سکے، تو کل کا مورخ ہمیں صرف مجرموں کی صف میں لکھے گا — ان والدین کی حیثیت سے جنہوں نے خاموشی اختیار کی، اور ان شہریوں کی طرح جو جانتے تھے مگر کچھ نہ کر سکے۔
تو آئیے، اس بار خاموش نہ رہیں۔ اپنے دروازے کھولیں، بچوں کو حفاظتی قطرے پلوائیں، اور ان بہادر ورکرز کے ساتھ کھڑے ہوں، جو صرف ایک خواب لے کر نکلے ہیں: ایک محفوظ، صحت مند پاکستان۔