پاکستان ریلوے کی ڈیجیٹائزیشن اور جدید کاری کے اقدامات تیزی سے جاری ہیں، جس کا جائزہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں لیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ 7 ڈیجیٹل پورٹل فعال ہیں اور 54 ریلوے اسٹیشن پہلے ہی ڈیجیٹائز کیے جا چکے ہیں۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد اسٹیشنز پر مفت وائی فائی فراہم کی جا چکی ہے جبکہ مزید 48 اسٹیشنوں پر 31 دسمبر تک یہ سہولت مہیا کی جائے گی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ 56 ٹرینیں RABTA پلیٹ فارم پر منتقل کی گئی ہیں جبکہ کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن سے ڈیجیٹل ویہنگ برج کا پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے، جسے پپری، کراچی چھاؤنی، پورٹ قاسم، لاہور اور راولپنڈی اسٹیشنز پر بھی نافذ کیا جائے گا۔
راولپنڈی اسٹیشن میں 148 اے آئی سرویلنس کیمرے نصب کیے گئے ہیں اور اسٹیشنز پر بینکوں کے ATM کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اسٹیشنز کی صفائی ستھرائی آؤٹ سورس کی گئی ہے اور بڑے اسٹیشنوں پر مسافروں کے لیے اعلی معیار کی انتظار گاہیں بنائی گئی ہیں۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ چار ٹرینیں آؤٹ سورس کی جا چکی ہیں اور جلد مزید 11 ٹرینیں آؤٹ سورس ہوں گی، جس سے 8.5 ارب روپے اضافی ریونیو متوقع ہے۔ اسی طرح، 40 لگیج اور بریک وینز کی آؤٹ سورسنگ سے 820 کروڑ روپے اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔
ریلوے اسپتالوں، اسکولوں، کالجوں اور ریسٹ ہاؤسز کی آؤٹ سورسنگ بھی جاری ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ 155 ریلوے اسٹیشن شمسی توانائی پر منتقل کیے جا چکے ہیں، جبکہ مین لائن ون کے کراچی-کوٹری سیکشن اور مین لائن تھری کی اپ گریڈیشن کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہے۔ تھر ریل کنیکٹیویٹی منصوبے پر بھی حکومت سندھ کے ساتھ کام جاری ہے۔
مزید براں، اسلام آباد-تہران-استنبول ٹرین جلد شروع ہوگی اور قازقستان-ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریل منصوبے کے ابتدائی اقدامات بھی جاری ہیں۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ریلوے منصوبوں میں قانونی اور معاشی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں اور ریلوے کی پراپرٹی اور زمین کے معاملات میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل اختیار کیا جائے۔
