پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے بتایا جا رہا ہے کہ طاقتور کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات کیسے کی، لیکن جیل کی سختیوں کے باوجود میں وقت کے جابروں کے سامنے سر نہیں جھکاؤں گا۔
اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی خدمات کو سراہتا ہوں جو ایک سال سے میرے کیس کی غیر جانبدار رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ اس دوران کچھ صحافیوں نے شکوہ کیا کہ ان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے بعض چینلز کے رپورٹرز پر الزامات لگائے ہیں کہ وہ ایجنسیوں سے وابستہ ہیں،اس پر عمران خان نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ علیمہ خان نے یہ بیان کیوں دیا، اور وہ اس معاملے پر ان سے بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں صحافیوں پر مکمل اعتماد ہے اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں،عمران خان نے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جن تین صحافیوں کے نام لیے گئے ہیں، مجھے ان پر مکمل اعتماد ہے اور آپ صحافت کے میدان میں ایک عظیم کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کرکٹ کو شدید نقصان پہنچا ہے، محسن نقوی کا نام اخبارات میں جگہ نہیں بنا پایا۔ دنیا بھر میں ہماری کرکٹ کا مذاق بنایا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش نے ہمیں پھینٹا لگا دیا ہے، اس سے نیچے ہماری کرکٹ نہیں گر سکتی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ محسن نقوی کے پاس نہ تو کوئی خاص تجربہ ہے اور نہ ہی وہ قابلیت رکھتے ہیں جو چیئرمین پی سی بی بننے کے لیے ضروری ہے۔ ان کی اہلیت بس اتنی ہے کہ انہیں جنرل عاصم منیر کی حمایت حاصل ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ اس بار بھی ملک میں سرمایہ کاری کی تاریخ کی سب سے کم شرح دیکھنے کو ملی ہے، حکمران مسلسل قرض پر قرض لے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں مہنگائی کا نیا طوفان سر پر منڈلا رہا ہے، جبکہ فیصلہ ساز خود بیرون ممالک میں اربوں ڈالر رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک تیزی سے انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے، حکمرانوں کو 8 فروری کے خاموش پیغام کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ اب یہ لوگ سپریم کورٹ کو نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ انتخابی بے ضابطگیاں سامنے نہ آئیں۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستانیوں نے گزشتہ اڑھائی سال میں دبئی میں غیرمعمولی سرمایہ کاری کی ہے، مگر ملک کے فیصلہ سازوں میں نہ تو دانش ہے اور نہ ہی اخلاقیات، جس کے باعث ناقص اور غیر منطقی فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد، جو 75 سال کی ہیں اور کینسر کو شکست دے چکی ہیں، انہیں بھی جیل میں رکھا گیا ہے۔ اسی طرح 7 ماہ سے میری اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی جیل میں رکھا جا رہا ہے تاکہ مجھے دباؤ میں لایا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ طاقتور کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات کیوں کی۔ یہ لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ سائفر کے معاملے پر کیوں ڈٹے رہے۔ لیکن میں واضح کرتا ہوں کہ چاہے جیل کی چکی میں موت بھی آ جائے، میں کسی بھی صورت ظالم کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا۔
عمران خان نے کہا کہ 8 ستمبر کو قوم کو اپنی حقیقی آزادی کے لیے باہر نکلنا ہوگا کیونکہ موجودہ حالات ہمیں غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ججز کو دباؤ میں لایا جا رہا ہے، اور سرگودھا کے جج کو اٹھا کر لے جایا گیا، یہ صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں بحران بڑھتا جا رہا ہے اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی موجودگی نہ ہوتی تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسائل کا حل طاقت کے استعمال میں نہیں بلکہ منتخب نمائندوں کو موقع دینے میں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ بلوچستان میں غیرمنتخب افراد کو بٹھانے سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اور حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ اختر مینگل کی بات بالکل درست ہے، اور یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہو رہی ہے۔ انہوں نے ایسٹ پاکستان کے واقعات کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ میں اس وقت ڈھاکہ میں انڈر 19 کرکٹ کھیل رہا تھا ہماری آنکھوں کے سامنے بنگلہ دیش بنا، تاریخ سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔
عمران خان نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت بلوچستان کو ملنے والی رقم نیچے عوام تک نہیں پہنچتی، اس کا حل مقامی حکومتوں کے انتخابات میں ہے تاکہ وسائل صحیح طریقے سے تقسیم ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں حقیقی لوکل باڈی الیکشن کی اشد ضرورت ہے تاکہ نیچے تک پیسہ پہنچ سکے اور غربت کا خاتمہ کیا جا سکے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہماری حکومت آتے ہی سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات کروائے جائیں گے، جس کا ہم نے مکمل منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ ملک میں اس وقت ڈائیلاگ کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کہا جاتا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہماری وجہ سے ہے، تو پھر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بلوچستان میں کس کی وجہ سے سرگرم ہے؟
عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تین اقدامات ضروری ہیں: انٹیلیجنس، مذاکرات اور آپریشن، لیکن آپریشن پر اتنا زور دینے کے باوجود 2004 سے اب تک کیا فرق پڑا ہے؟ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے خفیہ ادارے اب پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جبکہ ان کا اصل مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔