جمعہ, 25 اپریل , 2025

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کو ہم سے بچھڑے 21 سال بیت گئے

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

قائد جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بِیت چکے ہیں۔

ان کا شمار ان چند سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو حقیقی معنوں میں ہر دور میں بلا خوف و خطر حق پر ڈٹے رہے، نوابزادہ نصر اللہ خان 13 نومبر 1916ء کو مظفرگڑھ کے قصبے خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ وہ ابھی چھ برس ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔

latest urdu news

انہوں نے ایچیسن کالج لاہور سے ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں داخلہ لیا لیکن شادی کے باعث انہیں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔

ابتداء میں وہ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے، سیاست انہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے شروع کی، 1950ء میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے بعدازاں اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ سے استعفیٰ دے دیا اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ قائم کی۔

1951ء کے بعد ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے نوابزادہ نصراللہ خان کا انکے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا،
انہیں سب سے زیادہ شہرت ایوب خان کے دور میں اس وقت ملی جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی کیلئے قربانیاں دیں اور ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا، اس وقت جب دوسرے سیاستدان ہمت ہار بیٹھے تھے یہ مردِ قلندر میدان عمل میں ڈٹا رہا اور ایوب خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرے۔

انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 18 سیاسی اتحاد بنائے، انہوں نے 1988ء اور 1993ء کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ایک فورم پر جمع کیا۔

نوابزادہ نصر اللہ خان پیرانہ سالی اور علالتوں کے دور سے گزر رہے تھے لیکن اس کے باوجود انتقال سے کچھ دن پہلے انہوں نے بیرون ملک کا دورہ کیا اور بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کی ترغیب دی 26 اور 27 ستمبر 2003ء کی درمیانی رات وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے، انہیں ان کے آبائی قبرستان خان گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا۔

News Alert Urdu

شیئر کریں:
frontpage hit counter